بھارت کے خارجہ امور کے وزیر ایس ایم کرشنا نے بدھ کے روز یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ بھارت اپنےعوام کی سلامتی اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کےلیےاپنی سرحدوں پر ہونے والی ہر پیش رفت کا باقاعدہ مشاہدہ کرتا ہے۔
وہ بھارت کے ایک اعلیٰ فوجی عہدے دار لیفٹیننٹ جنرل کے ٹی پرنائک کی تشویش کے اظہار پر سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔
بھارتی فوج کے شمالی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل پرنائک نے بھارتی کنٹرول والے کشمیر کے شہر جموں میں ایک سکیورٹی کانفرنس کے دوران میڈیا کی اُن رپورٹوں کی بظاہرتصدیق کی کہ چینی افواج پاکستان کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں سرگرم ہیں۔
جنرل پرنائک نے کہا کہ آج جِن بیشتر افراد کو اِس حقیقت کے بارے میں تشویش ہے کہ اگر ہمارے اور پاکستان کے درمیان مخاصمت یا تنازعہ آرائی ہونا ہے تو پھر اِس میں چین کتنا ملوث ہوگا۔ صرف اِس لیے نہیں کہ وہ پڑوس میں موجود ہے بلکہ اِس لیے کہ وہ لائن آف کنٹرول پر حقیقتاً تعینات اور موجودہے۔
چین پاکستان کا قریبی اسٹریٹجک ساتھی ہے اور یقریباً 11000چینی فوجی مبینہ طور پر پاکستان کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں تعینات ہیں۔
پرنائک کہتے ہیں کہ چین پاکستان کو سڑکیں، پُل اور پن بجلی کے منصوبوں کی تکمیل میں مدد دے رہا ہے اور متنازعہ علاقے میں بیجنگ کی فوجی موجودگی بتدریج بڑھ رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے لیے تشویش کی وجہ موجود ہے۔
جنرل پرنائک کہتےہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اِس کے دور رس اثرات ہمارے علاقائی اور اسٹریٹجک مفادات کے نکتہٴ نظر سے نقصان دہ ہیں۔
جنرل پرنائک خبردار کرتے ہیں کہ پاکستان کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں اور چین کے زیرِ کنٹرول شمالی سرحدی علاقوں میں چین کی طرف سے انفرا اسٹرکچر کے لیے امدادی کارروائیوں سے بھارت کے ساتھ فوجی تنازع کی صورت میں بھارت کو نیچا دکھانے کے لیے پاکستان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر کے سیاحوں سے متعلق چینی کی ویزا پالیسی کئی ماہ سے بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر سے آنے والے سیاحوں کو ایسے کاغذی ویزے دیے جاتے ہیں جنھیں پاسپورٹ کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے جب کہ پاکستان کے زیرِ کنٹرول کشمیر سے آنے والے سیاحوں کو روایتی مہر لگا کر ویزے دیے جاتے ہیں۔
بیشتر بھارتی إِس پالیسی کو کشمیر پر پاکستان کی خوداختیاری کی توثیق کا اظہار کرتے ہیں۔ چین بھارت کی مشرقی ریاست ارونچل پردیش پر بھی بھارت کے اقتدار ِ اعلیٰ کو مسترد کرتا ہے جسے بیجنگ اپنے سرکاری نقشوں میں جنوبی تبت کے طور پر دکھاتا ہے۔
جنرل پرنائک سمندر میں بھی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں خبردار کرتے ہیں جو بھارت کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بحری اڈوں کے سمجھوتوں کے تحت حاصل ہو رہا ہے۔
یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جسے بیشتر بھارت ماہر چین کی ’اسٹرنگ آف پرلز‘ قرار دیتے ہیں۔
جنرل پرنائک کہتے ہیں کہ چینی موجودگی ہمارے اتنے قریب ہے جس سے تشویش پیدا ہوتی ہے۔ امکان ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ اگلے ہفتے چین کے وزیرِ اعظم وین جیا باؤ سے سکیورٹی کے امور پر پھر سے تبادلہٴ خیال کریں گے۔
توقع ہے کہ دونوں لیڈر کثیر الجہتی سربراہی مذاکرات کے لیے چین کے ایک تفریحی مقام پر ملاقات کرنے والے ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: