رسائی کے لنکس

پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے دہشت گردی سے نمٹنا ضروری


پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے دہشت گردی سے نمٹنا ضروری
پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے دہشت گردی سے نمٹنا ضروری

امریکہ سے آئے ہوئے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر مارون واین بوم نے کہا کہ عالمی تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ امن کے فروغ کے لیے پیچیدہ نہیں بلکہ قابل حل معاملات کو طے کیا جانا چاہیے لہذا ان کی رائے میں مسئلہ کشمیر کے دیر ینہ تنازع کا حل پاک بھارت امن عمل کی ”شروعات نہیں بلکہ اختتام ہونا چاہیے۔“

پاک بھارت تعلقات کے موضوع پر اسلام آباد میں منعقد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی مبصرین نے کہا کہ رواں ماہ کے آخر میں دونوں ملکوں کے داخلہ سیکرٹریوں کے درمیان ملاقات خوش آئندہ ہے لیکن دوطرفہ تعلقات معمول پر لانے اور اعتماد بحال کرنے کے لیے دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنا نہایت ضروری ہے ۔

یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس اور سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عزیز احمد خان نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کی وجہ تنازع کشمیر کی جگہ اب دہشت گردی کا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور ان کی رائے میں اگردوطرفہ تعلقات معمول پر لاکر تصفیہ طلب معاملات طے کرنے ہیں تو ضروری ہے کہ پہلے مشترکہ طور پر دہشت گردی سے نمٹا جائے۔

سابق سفیر کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں پاکستان اور بھارت کے خفیہ اداروں کو آپس میں تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک مربوط حکمت عملی کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کیا جاسکے جس نے 2004ء میں شروع ہونے والے امن کے عمل کو نہ صرف توڑ دیا بلکہ وہ تجارتی تعاون اور عوامی رابطے بھی جمود کا شکار ہوگئے جو اس عمل کے نتیجے میں تیزی سے فروغ پارہے تھے۔

عزیز احمد خان نے کہا”2003ء میں ہماری دوطرفہ تجارت کا حجم 24کروڑ 60لاکھ ڈالر تھا جو ممبئی حملوں سے پہلے دو ارب ڈالر تک جاپہنچا تھا، اگر دہشت گردی کا یہ واقعہ نہ ہوتا تو دوطرفہ تعاون مزید بڑھتا چلا جاتا“۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی ایک تنازع کے باعث دیگر مسائل کے حل میں پیش رفت کا عمل نہیں رکنا چاہیے اور عوامی رابطے بڑھانے کے ساتھ سیاحت،ثقافت،تعلیم، صحت، زراعت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کو فروغ دیا جانا چاہیے۔

مارون واین بوم
مارون واین بوم

امریکہ سے آئے ہوئے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر مارون واین بوم نے کہا کہ عالمی تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ امن کے فروغ کے لیے پیچیدہ نہیں بلکہ قابل حل معاملات کو طے کیا جانا چاہیے لہذا ان کی رائے میں مسئلہ کشمیر کے دیر ینہ تنازع کا حل پاک بھارت امن عمل کی ”شروعات نہیں بلکہ اختتام ہونا چاہیے۔“

امریکی اسکالر کا کہنا تھا کہ انھیں ان الزامات میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی کہ بھارت پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کسی بھی طرح بدامنی پھیلانے میں ملوث ہے ۔”کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک شورش زدہ یا غیر مستحکم پاکستان کبھی بھی بھارت کے مفاد میں نہیں ہوسکتا“۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی صحافی اور تجزیہ کار رضاالحسن نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے داخلہ اور ہوم سیکرٹریوں کے درمیان رواں ماہ کے آخر میں نئی دہلی میں ہونے والی بات چیت میں اگرچہ کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں کی جانی چاہیے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ممبئی حملوں کے بعد دونوں ملکوں کا مذاکرات کی طرف لوٹنا اپنے آپ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔

رضا الحسن
رضا الحسن

بھارتی مبصر کا کہنا تھا کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے تعلقات کیونکہ ممبئی حملوں کے تناظر میں شکوک وشبہات اور کشیدگی کے زیراثر ہیں اس لیے ان کے مطابق حقیقت پسندانہ حکمت عملی یہ ہوگی کہ دونوں ملک کشمیر جیسے دیر ینہ اور پیچیدہ مسئلے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے دہشت گردی سے نمٹنے اور عوام کے درمیان رابطے بڑھانے پر توجہ دیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام تنازعات کے حل کی اہمیت اپنی جگہ لیکن دوطرفہ بات چیت میں مسئلہ کشمیر کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG