بھارت اور چین کے درمیان سرحدی معاملات پر مذاکرات کے باوجود چند روز قبل چینی سرحد سے ملحقہ بھارتی ریاست سکم کے علاقے ناکولا میں دونوں ملکوں کی فوجوں میں پھر جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جن میں فوجیوں کے زخمی ہونے کے بھی دعوے کیے جا رہے ہیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق 20 جنوری کو چین کے فوجیوں نے بھارتی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر دونوں ملکوں کے فوجوں کے درمیاں معمولی جھڑپ ہوئی جس کے بعد صورتِ حال معمول پر آ گئی۔
بھارتی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "سکم سیکٹر میں بھارتی فوجیوں اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے درمیان تصادم سے متعلق سوالات کیے جا رہے ہیں۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ 20 جنوری 2021 کو دونوں میں معمولی جھڑپ ہوئی تھی جسے مقامی کمانڈروں نے طے شدہ پروٹوکول کے مطابق سلجھا لیا۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ میڈیا کو مبالغہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے صرف حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرنی چاہیے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق چینی فوجیوں نے سرحد کی موجودہ صورت حال کو بدلنے کی کوشش کی جسے بھارتی فوجیوں نے ناکام بنا دیا۔
رپورٹس کے مطابق اس تصادم کے نتیجے میں چین کے 20 جوان اور بھارت کے چار جوان زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم فوج کے بیان میں اس سلسلے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس جھڑپ میں ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ایک بھی فائر ہوا ہے۔
چین کی جانب سے اس تازہ جھڑپ کے بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
گزشتہ سال مشرقی لداخ کی گلؤان وادی میں 15 جون کو دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان خونی جھڑپ ہوئی تھی جس میں 20 بھارتی جوان ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت بھارتی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین کے 35-40 جوان ہلاک ہوئے ہیں جس کی چین کی جانب سے نہ تو تصدیق کی گئی تھی نہ ہی تردید۔
بعدازاں چین نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس جھڑپ میں اسے بھی جانی نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔
ناکولا کا مقام 19000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ وہ سکم کو چین میں تبت خطے سے جوڑتا ہے اور انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔
اس خطے میں مئی 2020 میں بھی دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہی گلؤان وادی کا واقعہ پیش آیا تھا۔
یاد رہے کہ مذکورہ تصادم کی خبر لداخ میں دونوں ملکوں کے کور کمانڈرز کے درمیان بات چیت کے نویں دور کے دوران سامنے آئی ہے۔
یہ بات چیت مشرقی لداخ میں چینی سرحد کے اندر مولڈو کے مقام پر ہوئی۔ بات چیت کا آغاز اتوار کو دن میں 11 بجے ہوا اور یہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب میں ڈھائی بجے تک جاری رہی۔ تاہم اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ اس بات چیت کا کیا نتیجہ نکلا۔ نہ ہی بھارتی فوج کی جانب سے اس بارے میں کوئی اطلاع دی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متنازع مقامات سے پیچھے ہٹ جائے۔ لیکن چین کا کہنا ہے کہ پہلے بھارت پیچھے ہٹے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اپریل 2020 میں جو سرحدی صورت حال تھی اس کو برقرار رکھا جائے۔
ذرائع کے مطابق دونوں میں سے کوئی بھی فریق متنازع علاقے سے پہلے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں لگتا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع جلد حل ہو گا۔ مذاکرات کے نو ادوار کے باوجود دونوں ممالک کسی تصفیے پر نہیں پہنچ سکے۔ لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ اگر دونوں ملکوں میں سیاسی سطح پر مذاکرات ہوں تو ممکن ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرقی لداخ میں چین نے بڑے پیمانے پر فوجیں تعینات کر رکھی ہیں اور بھارت کی جانب سے بھی 50 ہزار جوان فوری طور پر لڑائی کی پوزیشن میں تعینات ہیں۔
بھارت چین امور کے ماہر، سینئر تجزیہ کار اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے مرکز برائے چینی مطالعات سے وابستہ پروفیسر بی آر دیپک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ناکولا پہلے سے متنازع رہا ہے۔ مئی میں یہیں سے جھڑپیں شروع ہوئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین کی سرحد بہت نازک اور حساس ہے۔ جس طرح دونوں ملکوں کی جانب سے فوجیوں کی تعیناتی میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے پیشِ نظر ایسا خطرہ ہے کہ اس قسم کے مزید واقعات ہو سکتے ہیں۔ موسمِ گرما میں صورت حال اور بھی خراب ہو سکتی ہے۔
بی آر دیپک نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد بہت طویل ہے۔ سکم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیوں کہ وہاں سکم اور تبت کی سرحد 1890 میں متعین کر دی گئی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دونوں ملک جس طرح سرحد پر بنیادی ڈھانچہ تیار کر رہے ہیں خاص طور پر چین نے بہت اچھی سڑکیں بنائی ہیں۔ ایسی صورت حال میں جھڑپوں کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
بی آر دیپک کا مزید کہنا ہے کہ فوجی سطح پر مذاکرات کے نو ادوار کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ لہذٰا سیاسی سطح پر مذاکرات سے دونوں ممالک تنازع کا کوئی نہ کوئی حل نکال سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے تو معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ چین نے جن علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے وہاں سے وہ پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے سرحد پر سبقت حاصل کر لی ہے۔
بی آر دیپک کے بقول ان علاقوں کو خالی کرنا اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا۔ لیکن وہ چاہتا ہے کہ بھارت جن اونچائیوں پر قابض ہے وہاں سے ہٹ جائے جب کہ بھار ت کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجیں پیچھے ہٹیں۔
ان کے خیال میں فریقین کی جانب سے اپنے اپنے مؤقف پر قائم رہنے کی وجہ سے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی ہے۔ اس لیے اس کی امید بہت کم ہے کہ فوجی سطح پر ہونے والے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔
پروفیسر بی آر دیپک کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی میڈیا بھارت میں پیش آنے والے منفی واقعات کو اچھالتا رہتا ہے۔ اس نے آج کل بھارت کی ویکسین ڈپلومیسی کے مقابلے میں اپنی ویکسین ڈپلومیسی شروع کر رکھی ہے۔ جس کے تحت وہ بھارت کی ویکسین کو ناکام اور اپنی ویکسین کو کامیاب بتانے کی کوشش کر رہا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر گزشتہ سال مئی میں اس وقت تنازع شروع ہوا تھا جب چین نے گلؤان وادی میں بھارت کی جانب سے سڑک کی تعمیر پر اعتراض کیا تھا۔
پانچ مئی کو دونوں ملکوں کے فوجیوں میں جھڑپ کے بعد فوجی تعطل پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد نو مئی کو سکم کے علاقے ناتھولا میں دونوں ملکوں کے فوجیوں میں جھڑپ ہوئی تھی جس میں کئی فوجی زخمی ہوئے تھے۔
اس کے بعد 15 جون کو لداخ کی گلؤان وادی میں وہ خونی جھڑپ ہوئی تھی جس میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ دونوں ملک اس تنازع کا تاحال کوئی حل نہیں نکال پائے۔