چینی حکام نے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کےاس بیان پر تبصرہ کرنے سےانکار کیا ہے جس میں انہوں نے چین سےانٹرنیٹ سینسر شپ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے منگل کے روز واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےکہا تھا کہ انٹرنیٹ سینسر کرنے والے ممالک بشمول چین، مصر اور تیونس جیسے اقدامات اٹھا رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا ویب سائٹس کے ذریعے منظم کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں حکومتوں کو رخصت ہونا پڑا۔
اپنی گفتگو میں ہیلری کلنٹن نے تیونس اور مصر میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں میں ٹوئٹر، فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے کردار کا تذکرہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ ٹوئٹر اور فیس بک پر چین میں پابندی عائد ہے۔
تاہم چینی وزارتِ خارجہ نے ہیلری کلنٹن کے مذکورہ بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
بدھ کے روز وائس آف امریکہ سے گفتگو میں چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ما زوکژو نے کہا کہ "چین میں انٹرنیٹ پر کوئی پابندی نہیں اور چینی شہری انٹرنیٹ کا آزادی سے استعمال کرتے ہیں"۔
عالمی برادری اور امریکہ کی طرف سے چینی شہریوں کو انٹرنیٹ کے آزادانہ استعمال کی اجازت دینے کے مطالبات پر چین ماضی میں بھی اسی طرز کے ردِ عمل کا اظہار کرتا آیا ہے۔
چین میں انٹرنیٹ پرعائد پابندیوں کا مقصد ملک میں سماجی انتشار کی روک تھام اور چینی شہریوں کی جانب سے حکومتی رویہ کی شکایات اور اصلاحات کے مطالبات کو منظرِ عام پر آنے سے روکنا ہے۔
بیجنگ حکومت کی جانب سے اکثر و بیشتر وائس آف امریکہ سمیت غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی ویب سائٹس پر بھی پابندی عائد کی جاتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں حساس موضوعات تک آن لائن رسائی کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔