مزوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے کہاہے کہ چین کی فیکٹریوں میں مزدورں کے لیے حالات مسلسل ابتری کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔
سرگرم کارکنوں نے یہ شہادت منگل کے روز چین پر کانگریشنل ایکزیکٹو کمشن کے روبرو دی۔
یہ کمشن چین میں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی صورت حال کے جائزے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
کمشن کے شریک چیئرمین کانگریس مین کرس سمتھ نے الزام لگایا کہ چینی راہنماؤں نے قانون سازی یا عملی طورپر کارکنوں کے حقوق کی ضمانت دینے کے لیے بہت معمولی اقدامات کیے ہیں۔
دنیا بھر میں مزدوروں اور انسانی حقوق سے متعلق انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر چارلس کرنگان نے وائرلس فون تیار کرنےوالی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی وی ٹیک سے منسلک فیکٹریوں میں مزوروں کی حالت بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کارکنوں کو صرف ایک ڈالر نو سینٹ فی گھنٹہ مزوری دی جاتی ہے۔ جو ایک مزور کی گذر اوقات کی ضروریات سے کم ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں حاصل حقوق اور مراعات انتہائی محدود ہیں۔
کرنگان کا کہنا تھا کہ مزور قدیم طرز کے کواٹرز کی کالونی میں رہنے پر مجبور ہیں اور بعض اوقات انہیں گلی سڑی خوراک کھانی پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کارکن پروڈکشن کا ہدف پورا کرنے میں ناکام ہوجائیں تو انہیں مزوری نہیں دی جاتی۔
مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک سرگرم کارکن لی شیانگ نے پینل کو بتایا کہ چین بھر کی زیادہ تر فیکٹریوں میں مزوروں کے وہی حالات ہیں جن کا ذکر کرنگان نے کیا ہے۔
لی نے ان ناگفتہ بہ حالات کی جزوی ذمہ داری ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ڈالتے ہوئے کہا کہ مزوروں کے حقوق اور سہولتوں پر نظر رکھنے کے ان کے وضع کردہ نظاموں میں اکثر فریب کاری سے کام لے کر غلط رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔
سرگرم کارکنوں نے یہ شہادت منگل کے روز چین پر کانگریشنل ایکزیکٹو کمشن کے روبرو دی۔
یہ کمشن چین میں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی صورت حال کے جائزے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
کمشن کے شریک چیئرمین کانگریس مین کرس سمتھ نے الزام لگایا کہ چینی راہنماؤں نے قانون سازی یا عملی طورپر کارکنوں کے حقوق کی ضمانت دینے کے لیے بہت معمولی اقدامات کیے ہیں۔
دنیا بھر میں مزدوروں اور انسانی حقوق سے متعلق انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر چارلس کرنگان نے وائرلس فون تیار کرنےوالی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی وی ٹیک سے منسلک فیکٹریوں میں مزوروں کی حالت بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کارکنوں کو صرف ایک ڈالر نو سینٹ فی گھنٹہ مزوری دی جاتی ہے۔ جو ایک مزور کی گذر اوقات کی ضروریات سے کم ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں حاصل حقوق اور مراعات انتہائی محدود ہیں۔
کرنگان کا کہنا تھا کہ مزور قدیم طرز کے کواٹرز کی کالونی میں رہنے پر مجبور ہیں اور بعض اوقات انہیں گلی سڑی خوراک کھانی پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کارکن پروڈکشن کا ہدف پورا کرنے میں ناکام ہوجائیں تو انہیں مزوری نہیں دی جاتی۔
مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک سرگرم کارکن لی شیانگ نے پینل کو بتایا کہ چین بھر کی زیادہ تر فیکٹریوں میں مزوروں کے وہی حالات ہیں جن کا ذکر کرنگان نے کیا ہے۔
لی نے ان ناگفتہ بہ حالات کی جزوی ذمہ داری ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ڈالتے ہوئے کہا کہ مزوروں کے حقوق اور سہولتوں پر نظر رکھنے کے ان کے وضع کردہ نظاموں میں اکثر فریب کاری سے کام لے کر غلط رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔