چین کے وزیر خارجہ نے منگل کے روز امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے واشنگٹن پر الزام لگایا کہ وہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان تناؤ کو ہوا دے رہا ہے جس سے تنازع اور مقابلے کی فضا جنم لے رہی ہے۔
دنیا کی یہ دو سب سے بڑی معیشتیں حالیہ برسوں میں تجارت، انسانی حقوق اور دیگر مسائل پر جھگڑتی رہی ہیں ، لیکن گزشتہ ماہ تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے جب امریکہ نے ایک چینی غبارے کو مار گرایا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اسے نگرانی کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔اس دعوے کو بیجنگ نے سختی سے مسترد کر دیا۔
بیجنگ کے نئے وزیر خارجہ چن گانگ نے جاری نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر امریکہ نے اپنی موجودہ سمت جاری رکھی تو اس کے "تباہ کن نتائج" ہوں گے۔
چن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’’اگر امریکہ بریک نہیں لگاتا اور نیچے کی سمت جانے والے راستے پر اپنی رفتار بڑھاتا رہتا ہے تو کوئی بھی ریل کو پٹڑی سے اترنے سے نہیں روک سکتا اور پھر یقینی طور پر تصادم ہو گا‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’تباہ کن نتائج کون برداشت کرے گا؟‘‘
وزیر خارجہ نے چین کے ساتھ امریکی مقابلے کو ’’ایک عاقبت نااندیش جوا‘‘ قرار دیا جس میں دونوں ملکوں کے لوگوں کے بنیادی مفادات اور حتیٰ کہ انسانیت کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بے نتیجہ کھیل ہے۔
چن کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب صدر شی جن پنگ نے بقول ان کے ’’چین پر قابو پانے، اسے گھیرنے اور دباؤ ڈالنے‘‘ کی مہم کی قیادت کرنے پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اپنے ملک کے نجی شعبے پر زور دیا کہ وہ جدت کو فروغ دیں اور خود انحصاری میں اضافہ کریں۔
چین کے ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے بڑھنے کی خواہشات کو حالیہ مہینوں میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے پابندیاں عائد ہونے سے دھچکہ لگا ہے جس سے سیمی کنڈکٹر چپ اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں کی ٹیکنالوجی کی درآمدات پر انحصار ختم کرنے کی اس کی ضرورت دو چند ہو گئی ہے۔
واشنگٹن نے حالیہ مہینوں میں قومی سلامتی کے خدشات اور چین کی فوج کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال کے خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے چین کی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری پر پابندیاں سخت کر دی ہیں۔
امریکہ پر براست تنقید کرتے ہوئے جس کی مثال کم کم ہے، چین کے صدر شی نے پیر کے روز صنعتی شعبے کے قائدین سے کہا کہ امریکی قیادت میں مغربی ممالک کی جانب سے چین کو دباؤ، گھیراؤ اور پابندیوں کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کی ترقی کے لیے غیرمعمولی شدید چیلنجز سامنے آئے ہیں۔
شی نے چین کی مینوفیکچرنگ صلاحیت کو بڑھانے کا عزم بھی ظاہر کیا اور کہا کہ ملک کو اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ارب 40 کروڑ افراد پر مشتمل ایک عظیم قوم کے طور پر ہمیں خود پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ ہم خود زندہ رکھنے کے لیے بین الاقوامی منڈیوں پر انحصار نہیں کر سکتے۔
چین کی سرگاری نیوز ایجنسی سنہوا نے کہا کہ عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس میں مندوبین سے اپنے خطاب میں شی نے کہا کہ چین میں لڑنے کی ہمت ہونی چاہیے کیونکہ ملک کو اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر گہری اور پیچیدہ تبدیلیوں کا سامنا ہے۔
کانفرنس میں امریکہ کے لیے چین کے سابق سفیر چن نے مغربی ممالک کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ چین یوکرین کی جنگ کے لیے روس کو ہتھیار فراہم کر سکتا ہے۔
چن کا کہنا تھا کہ بیجنگ کے ماسکو کے ساتھ تعلقات کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے چینی حکومت اور چینی عوام کے مضبوط عزم ، پختہ ارادے اور صلاحیت کو کمتر نہ سمجھا جائے۔
(اس خبر کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)