چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے اس کے بعض ہمسایہ ملکوں ،مشرقی ایشا، میں سیکورٹی کے مستقبل کے بارے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حال ہی میں جاپان نے چین کو مدِنظر رکھتےہوئے اپنے دفاعی انتظامات میں اہم تبدیلیاں کی ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس نے اس مہینے کے شروع میں ایشیا کی سکیورٹی کے حوالے سے امریکہ اور جاپان کے اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔ اُنھوں نے جاپان کےاُس فیصلے کی تعریف کی جو دسمبر میں کیا گیا ہے اور جس کے تحت فوجی وسائل شمال میں روس کے نزدیک سے جنوب مغربی جزائر میں چین کے قر یب منتقل کر دیے گئے ہیں۔ اور انھوں نے کہا کہ امریکہ اور جاپان کے ساٹھ سالہ سکیورٹی اتحاد کے بغیر، چین کا رویہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ زیادہ تحکمانہ ہوتا۔
چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے اس کے بعض ہمسایہ ملکوں میں کچھ تشویش پیدا ہوئی ہے۔ ان میں خصوصاً وہ ملک شامل ہیں جن کے ساتھ علاقے کے بارے میں کچھ تنازعات ہیں جیسے جاپان اور جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ ملک، گذشتہ ہفتے چین نے اپنے پہلے سٹیلتھ جٹ فائیٹر کی آزمائشی پرواز کی۔ یہ اس قسم کا جہاز ہے جس کا ریڈار یا روایتی طریقوں سے سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔ دفاع کے بعض مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین ایک نیا میزائل نصب کرنے کی تیاری بھی کر رہا ہے جو چینی علاقے سے بہت فاصلے پر امریکی طیارہ بردار جہازوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
کیلی فورنیا میں مانیٹری انسٹیویٹ آف انٹرنیشنل سڈیڈیز کے تسینیو آکہا (Tsuneo Akaha) کہتے ہیں کہ جاپان کے دفاعی اندازِ فکر میں جو تبدیلی آئی ہے، اس میں ان معاملات پر توجہ دی گئی ہے۔ ’’ اہم ترین وجہ تو چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت ہے خاص طور سے اس کی بحری طاقت اور نیا ہوائی جہاز، سٹیلتھ فائیٹرز اور مزید آبدوزیں بنانے کے چینی منصوبے جن کے ذریعے وہ اپنی طاقت دور دراز مقامات تک لے جا سکتا ہے‘‘۔
ٹوکیو اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی میں ستمبر میں اس وقت اضافہ ہوا جب Senkaku اورDiaoyu کے متنازع جزیروں کے نزدیک چینی ٹرالر ایک جاپانی گشتی کشتی سے ٹکرا گیا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ ان پانیوں میں جہاز رانی کی آزادی قائم رکھنا اس کے قومی مفاد میں ہے ۔ آکہا کہتے ہیں کہ امریکہ نے چین کے رویے میں نرمی لانے کے لیے جنوب مشرقی ایشیا میں اپنے اتحادیوں اور چھوٹے ملکوں کی مدد حاصل کی ہے۔
چین کی آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ ایجنسی کے چیئرمین ما زینجگینگ کہتے ہیں کہ چین امریکہ کے ساتھ کوئی تصادم نہیں چاہتا۔ لیکن اگر امریکہ چین کو اپنا حریف بنا کر پیش کرتا رہے گا تو یہ ممکن ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان شدید بحران پیدا ہو جائے۔ چین ایسا بالکل نہیں چاہتا۔ سیکورٹی کے معاملات میں امریکہ اور چین کے تعاون سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کا مطلق یہ خیال نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تصادم نا گزیر ہے۔
امریکی وزیر دفاع گیٹس نے بھی گذشتہ ہفتے چین میں یہی کہا کہ چین لازمی طور پر امریکہ کا اسٹریٹجک حریف نہیں ہے۔ پھر بھی بعض ایشیائی ممالک مستقبل کے خطرات کے پیش نظر اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور امریکہ اور چین کے تعلقات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
چین سپارٹیلی اور پاراسیل کے جزیروں سمیت ساؤتھ چائنہ سی کا دعوے دار ہے لیکن برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام بھی ان جزیروں کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سنگاپور انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیئر مین سائمن ٹے کہتے ہیں کہ چین کے بارے میں ایشیائی ملکوں کے احساسات ملے جلے ہیں۔ ’’ہم اقتصادی امور میں چین کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن ہمیں سیاست اور سیکورٹی کے بارے میں تشویش ہے۔ امریکہ سے ہماری توقع یہ ہے کہ وہ استحکام اور امن فراہم کرے گا جو ہماری خوشحالی اور ترقی کی بنیاد ہے‘‘۔
امریکہ کی طرح چین کی معیشت کے ساتھ ایشیائی ملکوں کے روابط بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک مشکل صورتِ حال ہے کہ ایسی ابھرتی ہوئی فوجی طاقت کے ساتھ جو کاروباری امور میں بھی ہماری بڑی شراکت دار ہے معاملات کس طرح طے کیے جائیں۔
سکیورٹی کے تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ چین کے ساتھ بات چیت اور فوجی تبادلے مسلسل جاری رہنے چاہئیں تا کہ غلط فہمیاں اور کشیدگیاں کم ہوں۔ بیجنگ نے گذشتہ سال امریکہ کے ساتھ فوجی تعلقات اس وقت ختم کر دیے تھے جب امریکہ تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے پر رضامند ہو گیا تھا۔ گذشتہ ہفتے وزیرِ خارجہ گیٹس کا دورہ تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے کی کوشش کا حصہ تھا۔ تا ہم ، چین کی فوج نے ان کی اس تجویز کو اب تک قبول نہیں کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدگی سے سکیورٹی کے مسائل پر اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا نظام قائم کرنا چاہیے۔