امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات کئی متنازع مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ چین کی کرنسی یوان کی شرح تبادلہ کا مسئلہ ہے جسے حکومت چین کنٹرول کرتی ہے، چین میں امریکی اشیاء کی نقل بنانے کا مسئلہ ہے اور دونوں حکومتوں کی طرف سے تجارت پر پابندیوں کا مسئلہ ہے۔
واشنگٹن میں صدر براک اوباما اور چین کے صدر ہوجن تاؤ کے درمیان ملاقات کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی امریکہ میں سیاسی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ چین پر ان معاملات میں دباؤ ڈالا جائے۔ دوسری طرف چین کی طاقت اور اپنی بات منوانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات بڑھ سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں کارنیج انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے یوکُون ہوانگ کہتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں واشنگٹن کا جو لب و لہجہ رہا ہے اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تلخی کو کم کرنے میں مدد نہیں ملی ہے۔ ’’میڈیا اور مغربی ملکوں میں چین کے امور کے ماہرین جو پیغام دیتے رہے ہیں اس سے چینی حکام کو یہ تاثر ملتا ہے گویا مغرب کی جیت کے لیئے چین کو ہرانا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو ہم تجارتی عدم توازن کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتے ، یا یہ کہنا کہ امریکہ میں اقتصادی ترقی کی راہ میں بہت زیادہ مشکلات رہی ہیں جب کہ چین نے بہت ترقی کی ہے۔ چین کے لوگوں کے لیئے یہ اندازِ فکر تکلیف دہ ہے۔‘‘
جب امریکی سیاست داں اور اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ چینی کرنسی یوان کی قدر مصنوعی طور پر کم رکھی گئی ہے، تو وہ در اصل یہ چاہتے ہیں کہ چینی کرنسی کی قدر زیادہ ہو تا کہ چین میں امریکی اشیاء سستی بِک سکیں اور امریکہ میں چینی مصنوعات مہنگی ہو جائیں۔ انہیں امید ہے کہ اس طرح چین میں امریکی برآمدات میں اضافہ ہو گا اور امریکہ میں چینی درآمدات کم ہو جائیں گی۔ لیکن چین کو خوف یہ ہے کہ اس کی برآمدات کم ہونے سے اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو جائِے گی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ اسی لیئے چین کو یہ مشورہ ناگوار ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کرنسی کی شرح تبادلہ میں تبدیلی بتدریج ہونی چاہیئے تا کہ معیشت میں عدم استحکام پیدا نہ ہو۔
بہت سے چینی اقتصادی ماہرین اور عہدے داروں کا خیال ہے کہ چین میں کارکنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے چین میں سالانہ آٹھ فیصد کی شرح سے اقتصادی ترقی ضروری ہے۔ چین نے اس دلیل کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ امریکہ کے توازن تجارت میں زبردست خسارے کی وجہ کرنسی کی شرح تبادلہ ہے۔
بہت سے اقتصادی ماہرین اور ایشیائی لیڈروں نے دنیا کی ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان اقتصادی تعاون پر زور دیا تا کہ اقتصادی خوشحالی کو فوائد سب تک پہنچ سکیں ۔ سنگا پور کے وزیر اعظم Hsien Loong نے اس مہینے کے شروع میں کہا کہ آج کی دنیا میں امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں اور دونوں ملکوں کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنا سیکھنا چاہیئے ۔
کارنیج انڈوومنٹ کے ہوانگ کہتے ہیں کہ باہم اعتماد پر مبنی تعلقات سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔’’یہ بات امریکہ کے مفاد میں ہے کہ چین کی ترقی کی رفتار تیز اور مستحکم رہے۔ اس طرح عالمی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے جو عالمی معیشت اور اقتصادی بحالی کے لیئے مفید ہے ۔ہمارا پیغام یہ ہونا چاہیئے کہ ہم اس بات کی قدر کرتے ہیں کہ چین مسلسل ترقی کر رہا ہے اور اس کی ترقی مستحکم اور پائیدار ہے۔ اس طرح ہم یہ امید کر سکتےہیں کہ چین کی در آمدات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا اور اگر وہ امریکہ سے زیادہ چیزیں در آمد کریں گے تو امریکہ میں ترقی کی شرح بڑھ جائے گی۔ اس طرح سب کو فائدہ ہوگا۔‘‘
گذشتہ جون سے اب تک، جب سے بیجنگ نے اپنی کرنسی سے ڈالر کا تعلق ختم کیا ہے، چین کی کرنسی کی قدر میں چار فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔2010 میں چین کے فاضل توازن تجارت میں سات فیصد کی کمی ہوئی اور وہ کم ہو کر 183 ارب ڈالر رہ گیا۔ بعض ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ ان اعداد و شمار سے سربراہ ملاقات سے قبل چین کی کرنسی یوان اور تجارتی توازن کے بارےمیں اشتعال انگیز بیانات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد ملے گی۔