رسائی کے لنکس

’ایک ہی بچہ‘پالیسی پر نظرثانی کی جائے: چینی تحقیقی ادارہ


یک اندازے کے مطابق چین کی 36 فی صد آبادی، یعنی تقریباً 48کروڑ افراد کو، صرف ایک ہی بچے کی اجازت ہے

چین کی ایک با اثر تحقیقی تنظیم کا کہنا ہے کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ چین ’ایک ہی بچہ‘ سے متعلق اپنی غیر مقبول پالیسی کو ترک کرتےہوئے, 2015ء تک ہر خاندان کو دو بچےپیدا کرنے کی اجازت دے۔

’چائنا ڈولپمنٹ ریسرچ فاؤنڈیشن‘ نے، جِس کے حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات بتائے جاتے ہیں، اِس بات کی سفارش اپنی ایک رپورٹ میں کی ہے، جس کے متن کی نقل چین کے سرکاری خبر رساں ادارے، شنہوا کو موصول ہوئی ہے۔

شنہوا نے اِس رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس پالیسی کے نتیجے میں سماجی تضادات نے جنم لیا اور اونچی سطح کے انتظامی اخراجات میں اضافہ آیااور بچے کی پیدائش اور جنس کے تعین پر بلاواسطہ طور پرطویل المدتی اثرات نمودار ہوئے۔

شنہوا کے مطابق، رپورٹ میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ 2020ء تک بچوں کی پیدائش پر لاگو قدغن کو ہٹالیا جائے۔

چینی حکام ایک ہی بچہ پالیسی کا دفاع کرتے آئے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ اس کے باعث لاکھوں بچوں کی پیدائش کو روکنا اور متعدد خاندانوں کو غربت کی لکیر سے نکالنا ممکن ہوا۔

چین میں ایک ہی بچہ پالیسی پر قومی سطح پر عمل درآمد 1979ء میں شروع ہوا، جِس کا مقصد آبادی بڑھنے کی رفتار میں آنے والی تیزی کو روکنا تھا، جِس کی چیرمین ماؤزے تنگ نے 1950 اور 1960کے عشروں میں حوصلہ افزائی کی تھی۔

اِس پالیسی پر عمل درآمد سےچینی جوڑوں کے لیے ایک ہی بچے پر اکتفا کرنا ممکن ہوا ، تاہم اقلیتوں، دیہی باشندوں اور دیگر گروپوں کو استثنیٰ دیا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق چین کی 36فی صد آبادی یعنی تقریباً 48کروڑ افراد کو صرف ایک ہی بچے کی اجازت ہے۔
XS
SM
MD
LG