واشنگٹن —
چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردی سے مقابلے کے لیے افغانستان کےساتھ قریبی تعاون کرے گا۔
چین کی جانب سے یہ اعلان ایک ٹرین اسٹیشن پر گزشتہ ہفتے ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سامنے آیا ہے جس کا الزام بیجنگ حکومت نے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں سرگرم مسلمان شدت پسندوں پر عائد کیا تھا۔
خیال رہے کہ چین کے اس شمال مشرقی پہاڑی علاقے کی سرحد پاکستان کےعلاوہ افغانستان سے بھی ملتی ہے اور چینی حکومت کا موقف رہا ہے کہ اس علاقے میں سرگرم دہشت گردوں کو پڑوسی ملکوں کے شدت پسندوں سے مدد ملتی ہے۔
چینی حکام کے مطابق سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کے ایک گروہ نے گزشتہ ہفتے جنوب مغربی شہر کن منگ کے ریلوے اسٹیشن پر خنجروں کے وار کرکے 29 افراد کو ہلاک اور 140 کو زخمی کردیا تھا۔
چین کی حالیہ تاریخ میں دہشت گردی کا یہ سب سے سنگین واقعہ تھا جس کےبعد چین کی حکومت نے سکیورٹی کے معاملات کا ازسرِ نو جائزہ شروع کررکھا ہے۔
ہفتے کو چین کی پارلیمان کے سالانہ اجلاس کے موقع پر دارالحکومت بیجنگ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیرِ خارجہ وونگ یی نے اعلان کیا کہ ان کا ملک افغانستان میں سیاسی مفاہمت اور تعمیرِ نو کے لیے عالمی برادری کے شانہ بشانہ کام کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ چین کی حکومت تمام دہشت گرد قوتوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے افغانستان اور دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھی قریبی تعاون کرے گی۔
چینی وزیرِ خارجہ نے اعلان کیا کہ ان کا ملک رواں سال اگست میں افغانستان کے مسئلے پر وزرائے خارجہ سطح کی ایک عالمی کانفرنس کی میزبانی بھی کرے گا جس میں کابل میں قیامِ امن کے امکانات پر غور کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ چینی وزیرِ خارجہ نے گزشتہ ماہ کابل کا دورہ بھی کیا تھا جو 11 برس کے بعد کسی اعلیٰ چینی رہنما کا افغانستان کا پہلا دورہ تھا۔
چینی حکام کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان کی قوت میں اضافہ ہونے سے سنکیانگ میں جاری مزاحمت بھی زور پکڑ سکتی ہے۔
سکیورٹی کے ان خدشات کے پیشِ نظر چین کی حکومت نے حالیہ مہینوں میں افغان بحران کے مختلف فریقوں سے براہِ راست رابطوں میں اضافہ کردیا ہے۔
چین کے صدر ژی جن پنگ نے بھی گزشتہ ماہ روس کے شہر سوچی میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی تھی جس کے دوران انہوں نے جنگ زدہ افغانستان کی تعمیرِ نو میں مدد دینے کا اعادہ کیا تھا۔
افغانستان میں سکیورٹی کی خراب صورتِ حال کےباوجود چین افغانستان کے وسیع معدنی ذخائر کی کھوج اور کا ن کنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کا خواہش مند بھی ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون ' کے اندازوں کے مطابق ان معدنی ذخائر کا تخمینہ 10 کھرب ڈالرہے۔
چین کی جانب سے یہ اعلان ایک ٹرین اسٹیشن پر گزشتہ ہفتے ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سامنے آیا ہے جس کا الزام بیجنگ حکومت نے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں سرگرم مسلمان شدت پسندوں پر عائد کیا تھا۔
خیال رہے کہ چین کے اس شمال مشرقی پہاڑی علاقے کی سرحد پاکستان کےعلاوہ افغانستان سے بھی ملتی ہے اور چینی حکومت کا موقف رہا ہے کہ اس علاقے میں سرگرم دہشت گردوں کو پڑوسی ملکوں کے شدت پسندوں سے مدد ملتی ہے۔
چینی حکام کے مطابق سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کے ایک گروہ نے گزشتہ ہفتے جنوب مغربی شہر کن منگ کے ریلوے اسٹیشن پر خنجروں کے وار کرکے 29 افراد کو ہلاک اور 140 کو زخمی کردیا تھا۔
چین کی حالیہ تاریخ میں دہشت گردی کا یہ سب سے سنگین واقعہ تھا جس کےبعد چین کی حکومت نے سکیورٹی کے معاملات کا ازسرِ نو جائزہ شروع کررکھا ہے۔
ہفتے کو چین کی پارلیمان کے سالانہ اجلاس کے موقع پر دارالحکومت بیجنگ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیرِ خارجہ وونگ یی نے اعلان کیا کہ ان کا ملک افغانستان میں سیاسی مفاہمت اور تعمیرِ نو کے لیے عالمی برادری کے شانہ بشانہ کام کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ چین کی حکومت تمام دہشت گرد قوتوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے افغانستان اور دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھی قریبی تعاون کرے گی۔
چینی وزیرِ خارجہ نے اعلان کیا کہ ان کا ملک رواں سال اگست میں افغانستان کے مسئلے پر وزرائے خارجہ سطح کی ایک عالمی کانفرنس کی میزبانی بھی کرے گا جس میں کابل میں قیامِ امن کے امکانات پر غور کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ چینی وزیرِ خارجہ نے گزشتہ ماہ کابل کا دورہ بھی کیا تھا جو 11 برس کے بعد کسی اعلیٰ چینی رہنما کا افغانستان کا پہلا دورہ تھا۔
چینی حکام کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان کی قوت میں اضافہ ہونے سے سنکیانگ میں جاری مزاحمت بھی زور پکڑ سکتی ہے۔
سکیورٹی کے ان خدشات کے پیشِ نظر چین کی حکومت نے حالیہ مہینوں میں افغان بحران کے مختلف فریقوں سے براہِ راست رابطوں میں اضافہ کردیا ہے۔
چین کے صدر ژی جن پنگ نے بھی گزشتہ ماہ روس کے شہر سوچی میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی تھی جس کے دوران انہوں نے جنگ زدہ افغانستان کی تعمیرِ نو میں مدد دینے کا اعادہ کیا تھا۔
افغانستان میں سکیورٹی کی خراب صورتِ حال کےباوجود چین افغانستان کے وسیع معدنی ذخائر کی کھوج اور کا ن کنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کا خواہش مند بھی ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون ' کے اندازوں کے مطابق ان معدنی ذخائر کا تخمینہ 10 کھرب ڈالرہے۔