بیجنگ —
شام کی حکومت کے خلاف اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی حمایت سے انکار کی بنا پر، چین اور روس پر سخت تنقید کی گئی ہے. اب جب کہ بعض مغربی ملکوں نے سرکاری طور پر شام کی حزبِ اختلاف کی حمایت شروع کر دی ہے، چینی عہدے داروں پر دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ شام کے معاملات میں دلچسپی لیں۔
شام میں جنگ جاری ہے اور حال ہی میں وہاں پر تشکیل پانے والے باغی گروپوں کے ایک اتحاد کو گذشتہ ہفتے برطانیہ اور فرانس نے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ سمیت دوسرے ملکوں نے ابھی اس اتحاد کو تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن انھوں نے بار بار شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا ہے ۔
اگرچہ چین پر مسلسل دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ مسٹر اسد کا تختہ الٹنے میں مدد دے، لیکن چین کے موقف میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔
بیجنگ میں وزارتِ خارجہ کی ترجمان حوا ینگ چن نے برطانیہ کی طرف سے شام کی حزبِ اختلاف کی حمایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کا ہمیشہ یہی خیال رہا ہے کہ شام کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔
’’بین الاقوامی کمیونٹی کی طرف سے جو بھی اقدام کیا جائے اس سے شام میں ہر قسم کے تشدد کے خاتمے، اور مسئلے کے سیاسی حل میں مدد ملنی چاہیئے اور مشرقِ وسطیٰ میں امن اور استحکام کو فروغ ملنا چاہیئے۔‘‘
چین دو بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو ویٹو کر چکا ہے جن میں شام کی حکومت کے خلاف پابندیاں لگانے کے لیے کہا گیا تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جیسے جیسے چین کی عالمی اقتصادی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھے گا، اس پر شام جیسے بین الاقوامی بحرانوں میں مضبوط موقف اختیار کرنے کے لیے دباؤ میں بھی اضافہ ہو گا۔
کیری براؤن یونیورسٹی آف سڈنی میں چائنا اسٹڈیز سینٹر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔
’’اُس دور جیسا سیاسی موقف اختیار کرنا جب کئی عشرے پہلے چین غیر اہم سا ملک تھا اور اس کی معیشت ترقی پذیر تھی، بڑا عجیب سا لگتا ہے ۔ میرے خیال میں چین کو اب ایسے معاملات میں جن سے وہ ماضی میں الگ رہنا پسند کرتا تھا، مجبوراً مضبوط موقف اختیار کرنا پڑے گا۔‘‘
چین کو لیبیا میں بھی اس قسم کی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے سامنے سوال یہ تھا کہ وہ باغیوں کی حمایت کر ے یا چینی حکومت کے دیرینہ اتحادی، معمر قذافی کی۔
روس اور چین نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی اُس قرارداد پر ووٹ دینے سے اعتراض کیا تھا جس میں نیٹو کو لیبیا پر فضائی کارروائی کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس قرار داد کے نتیجے میں نیٹو نے لیبیا میں کارروائی کی اور قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
لیبیا میں چین کے وسیع اقتصادی مفادات موجود تھے ۔ چینی میڈیا کے مطابق، چین کا 18 ارب ڈالر کا سرمایہ تعمیراتی منصوبوں میں لگا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ، 35,000 چینی کارکن لیبیا میں کام کر رہے تھے، اور جب جنگ چھڑی تو چین کو ان کارکنوں کو وہاں سے نکالنا پڑا۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کی سارہ رائن کہتی ہیں کہ شام میں چین کے مفادات بہت مختلف ہیں۔
’’میرے خیال میں اصل بات یہ ہے کہ شام کی صورتِ حال میں چین کے لیے نقصان ہی نقصان ہے۔ چین کو اسد میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، شام میں چین کے کوئی بڑے اثاثے نہیں ہیں، وہاں کوئی بڑے وسائل بھی نہیں ہیں، اور چینیوں کی کوئی بڑی تعداد بھی شام میں نہیں ہے جس کی انہیں کوئی فکر ہو۔‘‘
اس مہینے کے شروع میں چین نے شام کے لیے ایک چار نکاتی امن تجویز پیش کی تھی جس میں جنگ بندی اور ایک کمیٹی کی تشکیل کے لیے کہا گیا تھا، جو اس تنازعے کے سیاسی تصفیے کے لیے مذاکرات کرے گی۔
بعض تجزیہ کار کہتےہیں کہ یہ منصوبہ چین کے ذمہ دار بین الاقوامی طاقت بننے کی طرف ایک قدم ہے تاہم ایک رائے یہ ہے کہ چینی تجویز سے بحران کے تصفیے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔
شام میں خونریزی جاری ہے اور توقع ہے کہ چین پر شام کے باغیوں کی حمایت کے لیے دباؤ بڑھتا رہے گا۔ فرینڈز آف سیریا (Friends of Syria) گروپ کے ارکان، جو شام کی حزبِ ِ اختلاف کے حامی ہیں، 30 نومبر کو ٹوکیو میں اجلاس کریں گے۔
شام میں جنگ جاری ہے اور حال ہی میں وہاں پر تشکیل پانے والے باغی گروپوں کے ایک اتحاد کو گذشتہ ہفتے برطانیہ اور فرانس نے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ سمیت دوسرے ملکوں نے ابھی اس اتحاد کو تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن انھوں نے بار بار شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا ہے ۔
اگرچہ چین پر مسلسل دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ مسٹر اسد کا تختہ الٹنے میں مدد دے، لیکن چین کے موقف میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔
بیجنگ میں وزارتِ خارجہ کی ترجمان حوا ینگ چن نے برطانیہ کی طرف سے شام کی حزبِ اختلاف کی حمایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کا ہمیشہ یہی خیال رہا ہے کہ شام کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔
’’بین الاقوامی کمیونٹی کی طرف سے جو بھی اقدام کیا جائے اس سے شام میں ہر قسم کے تشدد کے خاتمے، اور مسئلے کے سیاسی حل میں مدد ملنی چاہیئے اور مشرقِ وسطیٰ میں امن اور استحکام کو فروغ ملنا چاہیئے۔‘‘
چین دو بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو ویٹو کر چکا ہے جن میں شام کی حکومت کے خلاف پابندیاں لگانے کے لیے کہا گیا تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جیسے جیسے چین کی عالمی اقتصادی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھے گا، اس پر شام جیسے بین الاقوامی بحرانوں میں مضبوط موقف اختیار کرنے کے لیے دباؤ میں بھی اضافہ ہو گا۔
کیری براؤن یونیورسٹی آف سڈنی میں چائنا اسٹڈیز سینٹر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔
’’اُس دور جیسا سیاسی موقف اختیار کرنا جب کئی عشرے پہلے چین غیر اہم سا ملک تھا اور اس کی معیشت ترقی پذیر تھی، بڑا عجیب سا لگتا ہے ۔ میرے خیال میں چین کو اب ایسے معاملات میں جن سے وہ ماضی میں الگ رہنا پسند کرتا تھا، مجبوراً مضبوط موقف اختیار کرنا پڑے گا۔‘‘
چین کو لیبیا میں بھی اس قسم کی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے سامنے سوال یہ تھا کہ وہ باغیوں کی حمایت کر ے یا چینی حکومت کے دیرینہ اتحادی، معمر قذافی کی۔
روس اور چین نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی اُس قرارداد پر ووٹ دینے سے اعتراض کیا تھا جس میں نیٹو کو لیبیا پر فضائی کارروائی کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس قرار داد کے نتیجے میں نیٹو نے لیبیا میں کارروائی کی اور قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
لیبیا میں چین کے وسیع اقتصادی مفادات موجود تھے ۔ چینی میڈیا کے مطابق، چین کا 18 ارب ڈالر کا سرمایہ تعمیراتی منصوبوں میں لگا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ، 35,000 چینی کارکن لیبیا میں کام کر رہے تھے، اور جب جنگ چھڑی تو چین کو ان کارکنوں کو وہاں سے نکالنا پڑا۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کی سارہ رائن کہتی ہیں کہ شام میں چین کے مفادات بہت مختلف ہیں۔
’’میرے خیال میں اصل بات یہ ہے کہ شام کی صورتِ حال میں چین کے لیے نقصان ہی نقصان ہے۔ چین کو اسد میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، شام میں چین کے کوئی بڑے اثاثے نہیں ہیں، وہاں کوئی بڑے وسائل بھی نہیں ہیں، اور چینیوں کی کوئی بڑی تعداد بھی شام میں نہیں ہے جس کی انہیں کوئی فکر ہو۔‘‘
اس مہینے کے شروع میں چین نے شام کے لیے ایک چار نکاتی امن تجویز پیش کی تھی جس میں جنگ بندی اور ایک کمیٹی کی تشکیل کے لیے کہا گیا تھا، جو اس تنازعے کے سیاسی تصفیے کے لیے مذاکرات کرے گی۔
بعض تجزیہ کار کہتےہیں کہ یہ منصوبہ چین کے ذمہ دار بین الاقوامی طاقت بننے کی طرف ایک قدم ہے تاہم ایک رائے یہ ہے کہ چینی تجویز سے بحران کے تصفیے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔
شام میں خونریزی جاری ہے اور توقع ہے کہ چین پر شام کے باغیوں کی حمایت کے لیے دباؤ بڑھتا رہے گا۔ فرینڈز آف سیریا (Friends of Syria) گروپ کے ارکان، جو شام کی حزبِ ِ اختلاف کے حامی ہیں، 30 نومبر کو ٹوکیو میں اجلاس کریں گے۔