حکومت چین نے اعلان کیا ہے کہ تبت کو زیادہ خودمختاری دینے کے معاملے پر ’غور نہیں کیا جاسکتا‘، جس کے بعد، چین اور تبت کے روحانی رہنما، دلائی لامہ کے مابین مذاکرات کی بحالی پر شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔
بدھ کو جاری ہونے والے قرطاس ابیض میں، جس میں سخت الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے، چین نے کہا ہے کہ سب سے پہلے دلائی لامہ تشدد پر ابھارنے اور تبت کی آزاد ریاست کے قیام سے متعلق اپنے خیالات چھوڑ دینے چاہئیں۔ جلاوطن رہنما سختی سے اِن الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر مذاکرات ہوئے تو وہ اس پر ہوں گے آیا دلائی لامہ علیحدگی پسنددانہ دعوے اور سرگرمیاں ترک کردیں گے، اور اُن کی جانب سے مرکزی حکومت اور چینی عوام سے معافی طلب کی جائے گی، اور وہ اپنی باقی زندگی سوچ میں درستگی لا کر گزاریں گے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چینی آئین اور قوانین کی رو سے تبت کے سیاسی درجہ بندی اور سطح کا تعین ہو چکا ہے؛ اور یہ کہ تبت کا معاملہ اور زیادہ خودمختاری کا کوئی معاملہ زیر غور نہیں لایا جائے گا۔
دلائی لامہ نے 1950ء کی دہائی میں تبت سے جلا وطنی اختیار کر چکے تھے، وہ کئی عشروں سے کہتے چلے آئے ہیں کہ وہ اپنے وطن کے لیے آزادی کی کوششیں نہیں کر رہے ہیں۔
اس کے برعکس، نوبیل انعام یافتہ، دلائی لامہ وسیع تر خودمختاری اور دیگر حقوق کے لیے کوشاں ہیں، جنھیں وہ ’بیچ کا کوئی راستہ‘ قرار دیتے ہیں۔
قرطاس ابیض میں، چین نے ’بیچ کے راستے‘ کی کسی بات پر تنقید کرتے ہوئے اِسے دغابازی اور ’ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے‘ کی کوشش قرار دیا ہے۔ اِس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’تبتیوں کی جانب سے خودسوزی کی حالیہ لہر کا محرک اور منبہ یہی 79 برس کا یہ شخص اور اُن کے حامی ہیں‘۔
سنہ 2009 سے اب تک چین کے تبتی علاقے میں 130 تبتی خودسوزی کر چکے ہیں، جسے وہ تبت میں چین کی حکمرانی اور ظالمانہ پالیسیوں پر احتجاج کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ خودکشی پر مبنی احتجاج دہشت گردی کی حرکات میں آتا ہے۔
سنہ 2010 میں، دلائی لامہ اور حکومت چین نے آخری بار مذاکرات کیے تھے۔
حالیہ مہینوں کے دوران، دلائی لامہ نے کہا ہے کہ وہ پُرامید ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما، ژی جِن پِنگ، جو سنہ 2012میں اقتدار میں آئے ہیں، دوبارہ مذاکرات کا آغاز کریں گے۔