کرونا وائرس سے بچاؤ کے ساز و سامان کی مانگ میں اضا فے کے سبب چین کی برآمدادت میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے، جو نومبر کے مہینے میں بڑھ کر گزشتہ دو سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں نومبر میں چین کی مصنوعات کی برآمدات میں 21 اعشاریہ ایک فی صد کا اضافہ ہوا۔ پیر کو جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق یہ اضافہ 12 فی صد کی متوقع شرح سے کہیں زیادہ رہا۔ اکتوبر میں چینی برآمدات میں 11 اعشاریہ چار فی صد اضافہ ہوا تھا۔
ساتھ ہی چین کی درآمدات میں نومبر میں ساڑھے چار فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اکتوبر میں چین کی درآمدات میں چار اعشاریہ سات فی صد اضافہ ہوا تھا جو کہ خبر رساں ادارے رائٹرز کی چھ اعشاری ایک فی صد شرح سے کم رہیں۔ لیکن یہ چین کی درآمدات میں مسلسل تیسرے ماہ کا اضافہ تھا۔
اقتصادی ماہرین کی نظر میں یہ اضافہ اندرونی مانگ میں اضافے اور اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی بدولت ہوا۔
اس بہتر کارکردگی نے چین کے نومبر کے تجارتی فائدہ کو بڑھا کر 75 ارب ڈالر سے اوپر پہنچا دیا جو کہ 1981 سے اب تک کا سب سے بڑا تجارتی سر پلس ہے۔
یہ کارکردگی دو ماہ کی پیشین گوئی کے مقابلے میں کہیں بہتر رہی۔
مالی امور کی کمپنی نومورا کے ماہرین کے مطابق چین کی برآمدات میں اس زبردست اضافے کے محرکات میں بیرون ممالک کرونا کے بحران کے باعث لوگوں میں ذاتی حفاظتی سامان کی مانگ میں اضافہ، اندرون ملک الیکٹرانک کی اشیا کی مانگ میں گھروں سے کام کرنے کی وجہ سے اضافہ اور کرسمس کے موقع پر ساز و سامان کی کھپت میں اضافہ شامل ہیں۔
نومرا کمپنی کے مطابق آئندہ آنے والے کئی ماہ تک چین کی برآمدات میں اضافہ برقرار رہے گا کیونکہ کووڈ نائنٹین کی صورت حال بگڑتی جا رہی ہے۔
ساتھ ہی کمپنی کا کہنا ہے کہ عالمی وبا سے متعلق اشیا کی مانگ میں کمی بھی آ رہی ہے۔
علاوہ ازیں لاک ڈاون کے دوران فریج، ٹوسٹرز اور مائیکروویو اون جیسی گھریلو استعمال کی اشیا کی دھڑا دھڑ فروخت نے چین کی پیداواری صنعت کو دوبارہ سے متحرک کر دیا ہے۔ اس تیزرفتار پیداوار سے سٹیل، تانبے، الومینم جیسی دھاتوں کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔
دریں اثنا چین کی کرنسی یوان مسلسل مضبوط ہو رہی ہے اور لگا تار چھ ماہ کے اضافے کے بعد اس کی قدر گزشتہ اڑھائی سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
تجارتی کارکردگی کے سبب چین کا امریکہ کے مقابلے میں فائدہ بڑھ کر نومبر میں 37اعشاریہ 42 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اگرچہ جو بائیڈن کی قیادت میں امریکہ کی آنے والی انتظامیہ چین کے متعلق بیان بازی میں کمی لائے گی، لیکن ایسے کوئی اشارے اب تک سامنے نہیں آئے کہ نئی انتظامیہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سزا کے طور پر چین پر عائد کیے گئے تجارتی نرخ ختم کر دےگی۔