چین میں کرونا وائرس کے خلاف جاری کوششوں کے باعث شنگھائی سمیت کئی صنعتی شہروں کے بند ہونے اور عالمی طلب کے کمزور ہونے کے باعث اپریل میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی برآمدی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔
چین میں پیر کے روز سامنے آنے والے کسٹم کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کی برآمدات 3.7 فیصد کے اضافے کے ساتھ 273.6 ارب ڈالر پر پہنچی ہیں۔ یہ مارچ میں 15.7 فیصد کے اضافے سے کہیں کم ہے۔ چین کی اندرونی مارکیٹ میں بھی طلب میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ملک کی درآمدات 0.7 فیصد کے اضافے سے 222.5 ارب ڈالر پر موجود ہیں۔ گزشتہ مہینے درآمدات میں بھی اضافہ ایک فیصد سے کم دیکھنے میں آیا تھا۔
چین میں جاری مہنگائی، امریکہ اور بڑی منڈیوں کی جانب سے سود میں اضافے، معاشی صورتحال اور ملازمتوں کے حصول سے متعلق بے یقینی کی وجہ سے ملکی برآمدات کی طلب دباؤ کا شکار ہے۔
بڑی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ چین میں حکمراں کمیونسٹ پارٹی کی ’زیرو کووڈ‘ کی پالیسی کی وجہ سے شنگھائی میں اکثر کاروباروں اور دوسرے صنعتی شہروں کے عارضی طور پر بند ہونے کی وجہ سے آٹو، الیکٹرونکس اور دوسری صنعتوں کی عالمی تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔
کیپیٹل اکنامکس ادارے میں کام کرنے والے جولیان ایوانز پریچرڈ نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ وائرس کی وجہ سے اگرچہ تجارتی مرکزوں میں پیدا ہونے والے تعطل سے مسائل جنم لے رہے ہیں لیکن اصل مسئلہ عالمی طلب کے کم ہونے کا ہے۔ ان کے بقول ’’ہم توقع کر رہے ہیں کہ آنے والی سہ ماہی میں،برآمدی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔‘‘
معاشی پیش بندی کرنے والے توقع کر رہے ہیں کہ ملک میں وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے رواں برس چینی صنعتی پیداوار کے بہتر ہونے کے امکانات ہیں۔ لیکن صدرشی جن پنگ کی جانب سے گزشتہ ہفتے زیرو کووڈ پالیسی کو جاری رکھنے کا عزم دہرائے جانے کے بعد خدشات ہیں کہ اس کی وجہ سے صنعتی پیداوار، ریٹیل اور تجارت پر دباؤ پیدا ہو سکتا ہے۔
چین کی امریکہ کو برآمدات 9.5 فیصد اضافے کے ساتھ 46 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ دونوں معیشتیں بیجنگ کی ٹیکنالوجی کو بہتر کرنے کی دوڑ کی وجہ سے معاشی مسابقت کا شکار ہیں۔ امریکہ سے درآمدات اس مہینے 0.9 فیصد اضافے کے ساتھ 13.8 ارب ڈالر پر موجود تھیں۔
چین کی عالمی تجارت میں نفع 19.4 فیصد اضافے کے ساتھ 51.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جب کہ امریکہ کے ساتھ تجارت میں نفع 65 فیصد کم ہو کر 9.8 ارب ڈالر پر موجود ہے۔
چین میں کرونا وائرس کے کیسز میں کمی دیکھنے میں آٗئی ہے۔ لیکن بیجنگ کی جانب سے وائرس سے متاثرہونے والے افراد کو الگ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ڈھائی کروڑ کے شنگھائی شہر میں اکثر آبادی کو گھروں میں بند رہنا پڑا۔ اسی طرح جنوب میں پیداواری اور تجارتی مرکز گوانزو اور شمال مشرق میں صنعتی مرکز چانگچن تک رسائی بھی بند کر دی گئی تھی۔
حکام نے اگرچہ شنگھائی میں جاری لاک ڈاؤن کی شرائط میں نرمی کی ہے اور لاکھوں افراد کو اجازت دی ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکل سکتے ہیں لیکن بیجنگ اور دوسرے شہروں میں سختی کی جا رہی ہے۔
گزشتہ مالی سال جو اس برس مارچ میں ختم ہوا ، کے دوران چین کی معیشت کی شرح نمو 4.8 فیصد رہی۔ 2021 کے آخری تین مہینوں میں شرح نمو 4 فیصد رہی تھی۔ معیشت دان خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ اس برس اپریل سے جون کی سہ ماہی میں کرونا وائرس کی وجہ سے معاشی اشاریے سستی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
چینی معیشت میں طلب کے گھٹنے کی وجہ سے عالمی معیشت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے اور تیل، لوہے، صنعتی اشیا اور صارفین کی مصنوعات کی قیمتوں پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔