چین میں امریکی سفیر نے ایک مجوزہ احتجاجی مظاہرے کے مقام پر غیر ملکی صحافیوں کو حراست میں لینے اور اُنھیں تشدد کا نشانہ بنانے پر احتجاج کیا ہے۔
یہ احتجاجی ریلی دارالحکومت بیجنگ میں منعقد کی جانی تھی۔مشرق وسطیٰ میں حکومت مخالف بغاوتوں اور مظاہروں سے متاثر ہوکر چین میں انٹرنیٹ پر شائع کئے گئے ایک پراسرار پیغام میں لوگوں کو اتوار کے روز ”جیسمین ریلیز“ کے نام پر مختلف مقامات پر احتجاجی جلوسوں کے لیے جمع ہونے کو کہا گیا تھا۔ اس سے پچھلی اتوار کو بھی یہ پیغام شائع ہوا تھا۔
لیکن چینی حکام نے مجوزہ جلسہ گاہوں پرایسے اجتماعات کو روکنے کے لیے ہزاروں پولیس اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا۔
پیر کو بیجنگ میں امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر ایک پیغام میں امریکہ کے سفیر جان ہنٹسمین نے کہا ہے کہ اُن کی کئی صحافیوں سے گفتگو ہوئی ہے جن کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران انھیں ہراساں کیا گیا اور غیر قانونی طور پر حراست میں بھی لیا گیا۔ ایک صحافی کو بری طرح مارا پیٹا گیا اور کئی گھنٹوں تک اُسے حراست میں رکھا گیا۔
امریکی سفیر کے بقول یہ اقدامات” ناقابل قبول“ اور” انتہائی پریشان کن “ہیں۔اُنھوں نے چینی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان واقعات میں ملوث افراد کا احتساب کیا جائے اور چین میں غیر ملکی صحافیوں کے حقوق کے احترام کی ضرورت پر زور دیا۔
بیجنگ میں وائس آف امریکہ کی بیورو چیف سٹیفنی ہو اُن صحافیوں میں شامل تھیں جنہیں مظاہرے کے مقام پر ہراساں کیا گیا۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد، جو بظاہر پولیس اہلکار تھے، وی او اے کی خاتون نمائندہ کو دھکیلتے ہوئے ایک دکان کے اندر لے گئے جہاں انھیں ایک گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔
کئی دیگر صحافیوں نے بھی اطلاع دی ہے کہ اُن کے ویڈیو کیمرے اور دوسرے سامان کو حکام نے قبضے میں لے لیا یا پھر اُن میں موجود تصاویر اور فلمو ں کو ضائع کردیا گیا۔
انٹرنیٹ پر مظاہروں کی کال دینے والوں نے اپنی شناخت کو خفیہ رکھا ہے تاہم باور کیا جاتا ہے کہ یہ کام بیرون ملک آباد چینی باشندوں کا ہوسکتا ہے۔
چینی حکومت نے کسی بھی ایسے پیغام کو انٹرنیٹ اور موبائل فون پر جاری کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے جس میں ”جیسمین انقلاب“ حوالہ ہو جو مشرق وسطیٰ میں جاری اُن احتجاجی مظاہروں کی طرف اشارہ ہے جن کا آغاز تیونس سے ہوا۔