امریکہ، چین، روس اور پاکستان نے اتفاق کیا ہے کہ افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے لیے بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہونے چاہئیں، اس مقصد کے لیے کوششوں میں تیزی لانا ہو گی۔
بیجنگ میں چاروں ممالک کے نمائندہ وفود کے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت ڈپٹی سیکریٹری وزارت خارجہ محمد اعجاز نے کی۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق یہ اجلاس 10 اور 11 جولائی کو ہوا۔ جس میں امریکہ کی نمائندگی امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کی۔
خلیل زاد نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ اجلاس میں تشدد کو کم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ افغان دھڑوں کے مابین بات چیت ہی پائیدار امن کی ضمانت ہے۔
اجلاس میں افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لیے کاوشوں خاص طور پر ماسکو اور دوحہ میں افغان دھڑوں کے مابین مذاکرات کا خیر مقدم کیا گیا۔
چار فریقی اجلاس کے شرکاء نے افغان فریقین پر زور دیا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہونی چاہیے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افغان امن عمل کے لیے چین، امریکہ اور روس پر مشتمل سہ فریقی فورم میں پاکستان کی شمولیت فائدہ مند ہو گی۔
چین، روس اور امریکہ نے افغان مشاورتی عمل میں پاکستان کی شمولیت کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے امور خارجہ عندلیب عباس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغانستان سے متعلق اہم فورم میں پاکستان کی شمولیت کو خوش آئند قراردیا ہے۔
عندلیب عباس نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اس تناظر میں پاکستان کا کردار اہم ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "پاکستان کے خطے کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے ہیں اور عالمی قوتوں کو یہ ادراک ہو گیا ہے کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔"
پاکستان کو افغانستان سے متعلق فورم میں ایک ایسے وقت میں شامل کیا گیا ہے۔ جب پاکستان کے وزیر اعظم رواں ماہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کررہے ہیں، اور 22 جولائی کو صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔
عندلیب عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت ملے گی۔
دوسری طرف افغان امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق سفارت کار ایاز وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2015ء میں بھی چین، امریکہ، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل چار فریقی گروپ تشکیل دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ میں چار ملکوں کا فورم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جس کا مقصد افغان مسئلے کا حتمی حل تلاش کرنا ہے۔
ایاز وزیر کا کہنا تھا کہ دوحہ میں امن مذاکرات کے بعد افغانستان میں امن سمجھوتے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اگر افغان دھڑوں کے مابین کوئی معاہد طے پاتا ہے تو اس پر عمل درآمد کے لیے چین، روس، امریکہ اور پاکستان کی ضمانت بھی ضروری ہو گی۔"
ایاز وزیر کے بقول چین، روس اور پاکستان کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ ان ممالک کی حمایت سے افغانستان کے مسئلے کا پائیدار حل ممکن ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ قطر کے دارلحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے سات ادوار ہو چکے ہیں۔ زلمے خلیل زاد اور طالبان کے ترجمان نے حالیہ مذاکرات کو نتیجہ خیز قرار دیا تھا۔ طالبان ترجمان سہیل شاہین نے دعویٰ کیا تھا کہ مذاکرات میں 80 فیصد معاملات پر پیش رفت ہو چکی ہے۔