صحافیوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے بدھ کے روز شائع ہونے والی اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کے ابتدائی دنوں میں، چین نے وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کے متعلق خبروں کو روکنے کی کوشش کی تھی اور اُن لوگوں کو قید میں رکھا تھا جنہوں نے اس بارے میں بولنے کی کوشش کی تھی۔
تحقیق کے مطابق، بعد کے مہینوں میں جب وبا نے خاندانوں کے خاندان اور دنیا بھر کی معیشتوں کو تباہ و برباد کرنا شروع کیا، تو چین نے اپنی ساکھ کی بحالی کیلئے مبینہ طور پر غیر ملکی میڈیا کو استعمال کیا۔
آئی ایف جے کے مطابق، 50 ملکوں میں 54 صحافتی تنظیموں سے کئے گئے سروے سے ظاہر ہوا کہ ایسے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا جن کے میڈیا میں چین کی موجودگی نمایاں تھی۔ یہ موجودگی 64 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد ہو گئی ہے۔ وہ ممالک جہاں چین نے مقامی میڈیا کے لیے امداد یا تربیت کا اہتمام کیا تھا، آئی ایف جے کے مطابق وہاں چین کے حوالے سے مثبت خبریں سامنے آئیں۔
آئی ایف جے کے نائب جنرل سیکرٹری جیریمی ڈیئر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ 12 ماہ کے دوران، کرونا وائرس کی کہانی کو چین نے بقول ان کے بہت سے ممالک میں اپنا مثبت تشخص دکھانے کے لیے بڑی کامیابی سے استعمال کیا ہے۔
سروے میں شامل ہونے والوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ وبا کے آغاز سے چین کو 1 سے لیکر 10 کے میزان میں کہاں دیکھتے ہیں، تو جواب سے پتہ چلا کہ سب سے مثبت کوریج برِ اعظم یورپ میں ہوئی جو کہ 6.3 تھی، جب کہ شمالی امریکہ میں سب سے منفی تبدیلی دیکھنے میں آئی، جو کہ 3.5 فیصد تھی۔
چین کے اثر و نفوذ کو سب سے زیادہ افریقہ میں مثبت گردانا گیا، جہاں سروے میں شامل ہونے والے نصف افراد نے اسے فائدہ مند قرار دیا اور سب نے کہا کہ ان کے میڈیا میں چین کی موجودگی خاصی نمایاں تھی۔
جیریمی ڈیئر کا کہنا تھا کہ میڈیا کے بیانیے کو ڈھالنے کے لیے چین بہت کوشش اور وسائل استعمال کر رہا ہے۔ جس میں اپنے سفارتکاروں اور سفیروں کے ذریعے دباؤ ڈالنا، میڈیا کی تربیت اور مزید مراعات والی ملازمتوں کی پیشکش اور معاشی مشکلات کے دوران میڈیا کے لیے مفت مواد کی فراہمی شامل ہیں۔ اشتہارات سے وصول ہونے والی آمدن میں کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں نیوز روم کا سائز مزید چھوٹا ہوا ہے۔
اسی دوران، بقول آئی جے ایف کے چین نے غیر ملکی میڈیا کی اپنے ملک میں آمد کو محدود کر دیا اور صحافیوں کو ویزے دینے سے انکار کیا یا پھر انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔
چین کا یہ ردِ عمل، امریکہ کے اُس اقدام کے بعد سامنے آیا، جب اس نے چین کے خبر رساں ادارے ژنہوا نیوز ایجنسی سمیت چین کے 5 میڈیا اداروں کے صحافیوں کو ویزا دینے کی حد مقرر کر دی۔ اُدھر برطانوی میڈیا ریگولیٹر ( آفس آف کمیونیکیشن) آف کوم نے چائینہ گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک کا لائسنس یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ نیٹ ورک کے ادارتی مواد کی ذمہ داری اس کے پاس نہیں ہے۔
جیریمی ڈیئر کہتے ہیں کہ عالمی میڈیا پر اثر و نفوذ کے لیے چین کی بعض اوقات متضاد کوششوں کے باوجود، اس کے تمام اداروں کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور سیاسی طاقت کی مدد کرنا، وہ ہمیشہ مرکزی سمت میں جاتی ایک ہی کہانی سناتے ہیں۔
چین کی وزارتِ خارجہ نے 11 مئی کی بریفنگ میں اپنی میڈیا رسائی بڑھانے کا دفاع کیا تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان، ہُو آ چُن یِنگ کا کہنا تھا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور سب سے بڑا ترقی پزیر ملک ہونے کی حیثیت سے، یقیناً چین کو یہ حق حاصل ہے، کہ اسے عالمی میڈیا کے منظر نامے پر ایک مقام حاصل ہو۔
ہوآ نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے میڈیا کی آزادی کو جواز بنا کر مبینہ طور پر ڈِس انفارمیشن کے ذریعے چین پر حملہ کیا ہے، جب کہ بقول ان کے، چین نے کبھی کسی دوسرے ملک کو نشانہ نہیں بنایا۔
آئی ایف جے کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیقات، ایک آزاد و خود مختار خبروں اور میڈیا خواندگی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں اور ایڈیٹروں کو چین سے مفت خبروں کے مواد کی فراہمی کی اخلاقیات سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔