|
ویب ڈیسک _ چین سے رپورٹس سامنے آ رہی ہیں کہ ملک کے ایک اور وزیرِ دفاع ڈونگ جون کرپشن کے الزامات میں تفتیش کا سامنا کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دو امریکی عہدے داروں نے بتایا ہے کہ چینی وزیرِ دفاع کرپشن الزامات پر تفتیش کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس سے قبل برطانوی جریدے 'فنانشل ٹائمز' نے ایک موجودہ اور ایک سابق امریکی عہدے دار کا حوالہ دیتے ہوئے یہ خبر دی تھی۔
اگر اس رپورٹ کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ڈونگ جون گزشتہ لگ بھگ ایک برس کے عرصے میں کرپشن الزامات کا سامنا کرنے والے تیسرے وزیرِ دفاع ہوں گے۔
ماہرین اسے چین کی فوج میں بڑے پیمانے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چین کی وزارتِ دفاع نے جمعرات کو تصدیق کی کہ سینٹرل ملٹری کمیشن کے رُکن ایڈمرل میاؤ ہوا کو 'ڈسپلن کی سنگین خلاف ورزی' کے الزامات پر ہٹا دیا گیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بد عنوانی نے چین کی جنگی تیاریوں کو بھی متاثر کیا ہے اور بیجنگ میں بھی اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
دس برس قبل اقتدار سنبھالنے والے صدر شی جن پنگ نے حکومت اور فوج میں کرپشن کے خلاف بھرپور مہم چلانے کا اعلان کیا تھا۔
اس مہم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد چین میں شفاف اور کرپشن سے پاک حکمرانی کو فروغ دینا ہے۔ جب کہ ناقدین اسے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کا اقدام قرار دیتے ہیں۔
فوج اور دفاعی اداروں میں 'کریک ڈاؤن'
ایک برس کے دوران فوج اور دفاعی اداروں سے منسلک افراد اس مہم کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
اس دوران لگ 20 فوجی اور دفاعی عہدے داروں کو اُن کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے جن میں ڈونگ جون کے دو پیش رو بھی شامل ہیں۔
سابق وزرائے دفاع وی فینگے اور لی شانگ فو کو کرپشن الزامات کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف چائنا سے بھی نکال دیا گیا تھا۔
ماہرین نے اس اقدام کو پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی راکٹ فورس کے خلاف بڑے پیمانے پر تحقیقات سے جوڑا تھا۔
چین کی یہ فورس نیوکلیئر اور روایتی میزائلوں کی نگراتی کرتی ہے اور کسی بھی بڑے تصادم کی صورت میں چین کی فرسٹ لائن آف اٹیک سمجھی جاتی ہے۔
دونوں سابق وزرائے دفاع اس فورس سے منسلک رہے ہیں۔ لی شانگ فو میزائل بنانے والے ڈپارٹمنٹ کے سربراہ رہے ہیں جب کہ وی فینگے اس یونٹ کی سربراہی کرتے رہے ہیں۔
'صدر شی اہم فوجی حکام پر اعتماد نہیں کر رہے'
تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینئر فیلو انکیت پانڈے نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ لگتا ہے کہ صدر شی اہم فوجی حکام پر اعتماد نہیں کر رہے۔
چینی سیاست کے ماہر وکٹر شی کہتے ہیں کہ بطور کمانڈر ڈونگ جون اربوں ڈالرز کی خریداری کے معاملات دیکھتے تھے۔
ایشیا سوسائٹی میں چینی سیاست کے ماہر نیل تھامس کہتے ہیں کہ چین کی فوج میں خرابی کی جڑیں عام خیال سے بھی زیادہ گہری ہیں۔
امریکی جریدے 'بلوم برگ' نے امریکی انٹیلی جینس رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ راکٹ فورس میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی وجہ سے آلات خراب ہو گئے، یہاں تک کہ میزائلوں میں ایندھن کی جگہ پانی تک استعمال ہونے کی اطلاعات ملیں۔
امریکی سائنس دانوں کی فیڈریشن نے ان دعوؤں پر ایک خط میں لکھا کہ اگر یہ سچ ہے تو اس سے چین کا میزائل پروگرام بری طرح متاثر ہو گا جس کا چین کی جوہری صلاحیت پر بھی اثر پڑے گا۔
یہ کریک ڈاؤن ایسے وقت میں ہوا ہے جب چین نے تائیوان پر فوجی دباؤ بڑھا رکھا ہے اور متنازع جنوبی بحیرہ چین میں اپنے پڑوسی ممالک پر بھی دباؤ بڑھا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج میں کرپشن کے الزامات سے یہ تاثر زور پکڑے گا کہ چین کی فوج مکمل طور پر تیار نہیں ہے۔
چین کے صدر مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ تائیوان کو کسی نہ کسی دن چین میں ضم ہونا ہے جس کے لیے وہ فوجی طاقت کے استعمال سمیت تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔
تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ حالیہ کریک ڈاؤن سے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ فوجی قیادت میں صدر شی اب کس پر اعتماد کریں گے۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔