رسائی کے لنکس

مطیع اللہ جان عدالت میں پیش؛ ’ڈیڈ باڈیز کی اسٹوری پر کام کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا‘


  • صحافی مطیع اللہ جان کو جمعرات کی صبح اسلام آباد کی مارگلہ پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔
  • والد کو گاڑی میں سوار نامعلوم افراد لے کر گئے۔ ان کوئی رابطہ نہیں ہو رہا؛ صاحب زادے کا دعویٰ
  • ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے صحافی کو غیر مشروط طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ویب ڈیسک — اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سینئر صحافی اور یوٹیوبر مطیع اللہ جان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

اس سے قبل جمعرات کو عدالت میں پیشی کے دوران گفتگو کرتے ہوئے مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ اُنہیں ڈیڈ باڈیز سے متعلق اسٹوری کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

اسلام آباد پولیس نے مطیع اللہ جان کے خلاف نشے کی حالت میں ڈرائیونگ اور پولیس پر حملے سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

مطیع اللہ کو بدھ کی شب 'نامعلوم افراد' اپنے ساتھ لے گئے تھے جس کے بعد جمعرات کی صبح اُنہیں اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اُن کے صاحبزادے عبدالرزاق نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے والد کو نامعلوم افراد نے بدھ کی شب تقریباً گیارہ بجے پمز اسپتال کی پارکنگ سے اغوا کیا تھا۔

مطیع اللہ جان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں درج مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ ایک تیز رفتار گاڑی کو پولیس اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا۔ تاہم ڈرائیور نے اہلکاروں کو مارنے کی غرض سے گاڑی ان پر چڑھا دی۔ اس دوران ایک پولیس اہلکار زخمی بھی ہوا۔

پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق ملزم نشے کی حالت میں تھا جب کہ گاڑی کی سیٹ کے نیچے سے آئس برآمد ہوئی ہے جس کی مقدار 246 گرام ہے۔

مقدمے میں مطیع اللہ جان کی جانب سے پولیس اہلکاروں سے سرکاری اسلحہ چھیننے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق مطیع اللہ جان کے خلاف بدھ اور جمعرات کی شب تین بجے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

قبل ازیں مطیع اللہ جان کے صاحب زادے عبد الرزاق نے ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے والد کو گاڑی میں سوار نامعلوم افراد لے کر گئے ہیں۔ ان سے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔

سوشل میڈیا پر مطیع اللہ جان کے ذاتی اکاؤنٹ سے جمعرات کو کی جانے والی ایک پوسٹ کے مطابق "نامعلوم افراد نے مطیع سمیت ایک اور صحافی ثاقب بشیر کو بھی اٹھایا تھا جنہیں پانچ منٹ بعد چھوڑ دیا تھا۔"

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنے ایک بیان میں مطیع اللہ جان کو غیر مشروط طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

صحافی مطیع اللہ جان گزشتہ کچھ عرصے سے اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں اور اسلام آباد میں سیاست دانوں اور صحافت سے وابستہ شخصیات سے اپنے چینل کے لیے چلتے پھرتے انٹرویوز لیتے ہیں اور ان سے سخت سوالات کرتے ہیں۔

مطیع اللہ جان پاکستان میں ریاستی اداروں بالخصوص فوج کی سیاست میں مداخلت پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔

اسلام آباد میں رواں ہفتے تحریکِ انصاف کے احتجاج کے دوران بھی وہ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے ویڈیوز اپ لوڈ کرتے رہے تھے۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کی حکومت میں 21 جولائی 2020 کو مطیع اللّہ جان کو اسلام آباد میں ہی 'نامعلوم افراد' ایک اسکول کے قریب سے زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔

بعد ازاں یہ نامعلوم اغوا کار اُنہیں راولپنڈی سے 30 کلو میٹر دور فتح جنگ کے مقام پر گاڑی سے باہر پھینک کر چلے گئے تھے۔ اُس وقت ان کے اغوا پر سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا تھا اور سیکیورٹی اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے جمع کرائی گئی سرکاری رپورٹ مسترد کر دی تھی۔ پولیس نے رپورٹ میں کہا تھا کہ صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کاروں کی شناخت ممکن نہیں ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG