چین کی جانب سے مریخ پر بھیجی گئی ربوٹک گاڑی نےایک بڑے زیریں حصے میں ایسی معدنیات دریافت کی ہیں جن میں پانی کی موجودگی کا پتا چلا ہے۔ چینی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دریافت اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ مریخ کے اس زیریں حصے میں زمانہ قدیم میں سمندر ہوا کرتا تھا اور یہ کہ اس سیارے کی سطح پر پانی موجود تھاجیسا کہ طویل عرصے سے سوچا جا رہا تھا۔
چینی ربوٹک گاڑی نے زمینی مرکز کو جو سائنسی معلومات بھیجی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ ربوٹک گاڑی کی خودکار لیبارٹری میں معدنیات کے جن نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا وہ لگ بھگ 70 کروڑ سال قدیم ہیں ، جن میں پانی کی موجودگی کی نشاندہی ہوئی ہے۔
چین کے سائنس دان ژورونگ نے یہ تفصیلات ایک سائنسی جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والی اپنی تحقیق میں بتائی ہیں۔
اگر زمین پر سے کسی طاقت ور دوربین کے ذریعے مریخ کی سطح کا مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں وہاں ایسی علامتیں نظر آتی ہیں جیسے وہاں کبھی دریا بہتے ہوں گے اور سمندر میں جا کر گرتے ہوں گے۔ تاہم اب وہ خشک پڑ چکے ہیں۔ لیکن کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مریخ میں زیر زمین اب بھی پانی کی کچھ مقدار موجود ہو سکتی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر کی جانے والی سائنسی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لگ بھگ تین ارب سال پہلے تک اس سیارے کی سطح پر پانی موجود تھا۔ اسے مریخ کی جغرافیائی زندگی کے دوسرے دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دوران مریخ کی سطح پرموجود آتش فشاں پہاڑوں نے بڑے پیمانے پر لاوا اگلا اور اس سیارے کو تباہ کن طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا جس نے سیارے کی سطح کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ اس دور کو ہسپرین ایپلوچ کا نام دیا جاتا ہے جس کا اختتام لگ بھگ تین ارب سال پہلے ہو گیا تھا۔
مریخ کے تیسرے اور موجودہ دور کو سائنس دان ایمازونیئن کا نام دیتے ہیں جس میں اس کی سطح پر پانی ناپید ہو چکا ہے۔
ژورونگ کا کہنا ہے کہ ربوٹک گاڑی نے جن معدنیات کے نمونے اکھٹے کیے ہیں ان کی بیرونی سطح بہت سخت ہے جو زمین پر پانی کی سطح بلند ہونے کی صورت میں ہی بنتی ہے۔ یا اس کی دوسری صورت میں برف کا پگھلنا ہو سکتا ہے جو بخارات بن کر غائب ہو گئی۔
مریخ زمین کے مقابلے میں بہت چھوٹا سیارہ ہے۔ اس کا حجم زمین کے مقابلے تقریباً نصف ہے اوراس کی کمیت ہماری سمندری دنیا کا لگ بھگ 10 واں حصہ ہے۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کی کشش ثقل بھی بہت کم ہے، جس کی وجہ سے اس سیارے کے لیے ہلکی چیزوں کو، جیسے پانی اور دیگر مائع وغیرہ اپنی سطح کے ساتھ رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اگر وہاں کبھی سمندر بھی تھا تو اس کا پانی بخارات بن کر خلاؤں میں کہیں غائب ہو گیا۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ چٹانوں کے نیچے پانی کی موجودگی ممکن ہو سکتی ہے۔
چین نے اپنے راکٹ کے ذریعے بھیجی جا نے والی ربوٹک گاڑی گزشتہ سال مئی میں مریخ پر اتاری تھی۔ اسے مریخ کے جس حصے پر اتارا گیا ہے، سائنس اسے یوٹوپیا آف پلینی ٹیا کا نام دیتے ہیں۔ یہ ایک وسیع و عریض میدانی علاقہ ہے۔ ایک سال کے عرصے میں مریخ پر سائنسی تجربات کرنے والی یہ گاڑی تقریباً دو میل کا سفر طے کر چکی ہے اورزمین کے اس قریبی ہمسائے کے بارے میں مسلسل ڈیٹا اکھٹا کر رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں یورپ کے خلائی ادارے کی جانب سے مریخ کے مدار میں چکر لگانے والے ایک راکٹ کے ذریعے اکھٹی کی جانے والی معلومات سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ سیارے کے جنوبی قطبی برفانی حصے کے نیچے پانی موجود ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر موجود تمام تر پانی اس قطبی حصے کی برفانی تہہ کے نیچے بند ہے اور اس سیارے کی فضا انتہائی مہین ہے جس میں پانی کی موجودگی کی علامتیں انتہائی معمولی ہیں۔
سطح کے نیچے پانی کی تلاش سائنس دانوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پانی کی دریافت پر ہی انسان کے دوسرے سیاروں پر جانے کا انحصار ہے۔ اگر مریخ پر پانی نہ مل سکا تو وہاں مستقبل میں انسانی بستیاں آباد کرنے کا خوش کن تصور شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔