رسائی کے لنکس

چین، بھارت سرحدی مذاکرات؛ 'دونوں ممالک اب تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں'


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • چین اور بھارت 2019 کے بعد سےپہلی بار باضابطہ سرحدی مذاکرات منعقد کر رہے ہیں۔
  • دونوں فریقوں نے سرحدی تنازع کے باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کرنے کا عہد کیا ہے۔
  • یہ مذاکرات اکتوبر میں طے پانے والے اہم سرحدی معاہدے کے بعد ہو رہے ہیں۔
  • دونوں ملکوں کے درمیان 2020 سے ہلاکت خیز سرحدی جھڑپوں کے باعث تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔

نئی دہلی -- چین اور بھارت نے طویل عرصے سے جاری اپنے تنازع کو کم کرنے کی جانب ایک مزید قدم اٹھایا ہے اور پانچ سال میں پہلی بار ان کے سینئر عہدے داروں نے بدھ کے روز باضابطہ مذاکرات کیے ہیں اور باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کرنے کا عہد کیا ہے۔

بیجنگ میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی ملاقات دونوں ملکوں کی سرحد کے ایک متنازع حصے پر فوجی کشیدگی کم کرنے کے لیے ایک اہم معاہدہ طے پانے کے دو ماہ بعد ہوئی ہے۔

انہوں نے مغربی ہمالائی سرحدی علاقے میں امن برقرار رکھنے کے لیے سرحد کے معمول کے کنٹرول اور انتظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے چھ نکات پر بھی اتفاق رائے ہوا ہے جن میں سرحد پر امن کی برقراری اور سرحدی تنازعات کے حل کے لیے کسی قابلِ قبول پیکج کی تلاش بھی شامل ہے۔

فریقین کے درمیان طے پانے والے متفقہ نکات میں سرحد پار کی سیاحت بھی شامل ہے جس میں تبت اور سرحد پار دریائی تعاون، ناتھو لا سرحدی تجارت اور کیلاش مان سروور یاترا کا دوبارہ آغاز قابلِ ذکر ہے۔

جوہری طور پر مسلح دونوں پڑوسیوں کے درمیان 2020 سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ گلوان وادی میں دست بدست لڑائی میں بھارت کے کم از کم 20 اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ لڑائی 1962 میں بھارت اور چین کے درمیان ایک مختصر جنگ کے بعد سے مہلک ترین تھی۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فریقین نے پر امن حالات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’انہوں نے 2020 کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے سرحد پر امن اور ہم آہنگی بر قرار رکھنے اور مؤثر سرحدی انتظام کو مضبوط بنانے سے متعلق متعدد اقدامات پر گفتگو کی۔ ‘‘

بدھ کے مذاکرات 2019 کے آخر سے دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں کے درمیان سرحدی مسائل پر پہلے باضابطہ مذاکرات تھے۔

وانگ یی نے اس سے قبل سیکیورٹی کے امور پر برکس اجلاس کے موقع پر ستمبر میں روس میں دوول سے ملاقات کی تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے وقت میں جب کہ بھارت امریکہ کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات کو مزید آگے لے جانے کے لیے کوشاں ہے، مذکورہ ملاقات باہمی تعلقات کے سلسلے میں کسی سنگِ میل سے کم نہیں۔

'دونوں ممالک چاہ رہے ہیں کہ تعلقات بہتر ہوں'

سینئر تجزیہ کار نیلوفر سہروردی کے خیال میں کازان میں وزیرِ اعظم مودی اور صدر شی جن پنگ کی دو طرفہ ملاقات کے بعد سے ہی تعلقات کو بہتر بنانے کی مثبت کوشش شروع ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق فریقین کا ایک ساتھ آنا اور بات چیت شروع کرنا اپنے آپ میں بہت اہم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی اعلٰی قیادت کی ملاقات کے بعد خصوصی نمائندوں کی ملاقات سے یہ بات واضح ہے کہ دونوں ملک چاہ رہے ہیں کہ ان کے تعلقات بہتر ہوں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ تقریباً پانچ سال سے جو کشیدگی تھی وہ قائم رہے۔

ان کے مطابق فریقین نے تجارت، بحالی اعتماد کے اقدامات اور ایل اے سی سے فوجوں کو ہٹانے کی بھی بات کی ہے۔

نیلوفر سہروردی جہاں اگلے سال خصوصی نمائندوں کے درمیان دوبارہ ہونے والی مجوزہ ملاقات کو بہت اہم بتاتی ہیں وہیں وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ دونوں ملک دوسرے بعض ملکوں کو پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ وہ باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کی سنجیدہ کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف سخت کارروائی کا اشارہ دیا ہے۔ انھوں نے بھارتی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافے کی بھی بات کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت کے لیے جتنا اہم امریکہ ہے امریکہ کے لیے اتنا ہی اہم بھارت بھی ہے۔

ان کے مطابق رشتوں کو بہتر بنانے کی اس کوشش کو روس اور چین کے باہمی تعلقات اور روس اور بھارت کے باہمی تعلقات کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ان کے خیال میں موجودہ عالمی صورتِ حال جیسے کہ روس یوکرین جنگ اور اسرائیل حماس جنگ جیسے امور کے تناظر میں بھارت کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اگر وہ چین سے اپنے رشتے بہتر بنا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں روس مخالف مغرب اس کے خلاف کوئی موقف اختیار کرے گا۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت بدلتی ہوئی عالمی صورتِ حال میں ایک متوازن پالیسی لے کر چل رہا ہے۔

نیلوفر سہروردی بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ امریکہ ہو یا روس یا چین، ان ملکوں سے بہتر تعلقات میں ہی بھارت کا مفاد ہے۔

اسی کے ساتھ بھارت اور چین کے تجارتی مفادات بھی ہیں جو دونوں کو ایک بار پھر قریب لا رہے ہیں۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر چہ مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کی جا رہی ہے تاہم اسے ابھی سفارتی نظریے سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ یعنی اسے سرِدست سفارتی قدم ہی کہا جا سکتا ہے۔ دونوں کے درمیان کن کن نکات پر نفاذ ہو گا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق 2020 میں دونوں ملکوں میں سرحدی کشیدگی میں اضافے کے بعد دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔

انھوں نے رواں سال کے اکتوبر میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت فوجوں کی واپسی کی تصدیق کی۔

اجیت ڈوول نے کہا کہ پانچ سال کے بعد خصوصی نمائندوں کی ملاقات کافی ہے اور بھارت چین کے ساتھ اسٹریٹجک مواصلات کو مستحکم کرنے اور باہمی تعلقات کو رفتار دینے کا خواہاں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG