چینی حکام نے منگل کو بندرگاہوں پر اینٹی وائرس کنڑول کے نظام کو سخت کردیا ہے اور کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے حکومت نے چند نئے اقدامات کرتے ہوئے بعض آٹو اور الیکڑانکس فیکڑیوں کو بند کردیا ہے جس سے تجارت میں مسائل کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
پیر کو ہانگ کانگ سے ملحق شین زین کے علاقے میں ٹیکنالوجی اور فنانس کے مراکز اور ایک آٹو سینٹر کے بند ہونے کے بعد چین اور ہانگ کانگ میں اسٹاکس کی قیمتیں مسلسل دوسرے دن بھی گرگئیں ۔چین کے تجارتی مرکز اور سب سے بڑے شہرشنگھائی کے لیے بس سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔
دوسرے بڑے ممالک کے مقابلے میں چین میں کرونا کیسز کی تعداد اب بھی کم ہے۔ لیکن حکام مکمل کنٹرول کی حکمت عملی اپنارہے ہیں۔اس لیے ہر متاثرہ شخص کو تلاش کرنے کے لیے بڑےشہروں کو عارضی طور پر بند کردیا گیا ہے۔
چین میں کرونا سے منسلک یہ پابندیاں ایسے وقت میں لگائی گئی ہیں جب عالمی معیشت روس کی یوکرین کے خلاف جنگ ، تیل کی قیمتوں میں اضافے اور صارفین کی کمزور مانگ کے دباؤ میں ہے۔
ماہر معاشیات ایرس پینگ کا کہنا ہے کہ "اگر بندرگاہوں پر کام کو کرونا کے باعث معطل کرنا پڑا تو اس سے بہت سی الیکڑانک برآمدات متاثر ہوں گی"۔ کرونا کی روک تھام کے سلسلے میں بعض بندرگاہوں پر پورٹ آپریٹرز نے شپرز اور ملاحوں کے ساتھ بالمشافہ رابطے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ شنگھائی بندرگاہ کا انتظام کرنے والی ایجنسی نے اپنے کاونٹرز بند کردیے ہیں اور دستاویزات کے لین دین کاکام آن لائن کردیا ہے۔ شنگھائی کے شمال میں لیان یونگانک کی بندرگاہ نے اعلان کیا ہے کہ غیر ملکی ملاحوں کو جہاز چھوڑنے یا عملے کی تبدیلی کے لیے شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔
چینی سرزمین پر منگل کو رپورٹ ہونے والے نئے کیسز کی تعداد دوگنی سے بڑھ کرتین ہزار 507 ہوگئی جب کہ ہانگ کانگ میں پیر کو 26 ہزار 908 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
2019 میں چین کے وسطی شہر ووہان میں اس وبائی مرض کا آغاز ہوا تھا اور اس پر قابو پانے کے لیےبیجنگ کی جانب سے فیکٹریوں، دکانوں اور دفاتر کو بند کرنے کے بعد صورت حال میں کافی بہتری آگئی تھی ۔
کیسز میں تازہ اضافے کی وجہ کرونا کی قسم اومیکرون بتائی جارہی ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے اور بظاہر بیجنگ کی وبا کے خلاف حکمت عملی کو چیلنج کرتی نظر آرہی ہے۔
فنانس مارکیٹس پر نظر رکھنے والی کمپنی انویسکو کے ڈیوڈ چاؤ کا کہنا ہے کہ "بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کرونا کا بہت بڑا خطرہ ہے،جو ممکنہ طور پر چینی معیشت کو مزید کمزور کردے گا لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس سے پالیسی سازوں کو وبائی امراض سے متعلق پالیسیوں میں تبدیلیوں کاموقع ملے گا۔"
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)