چین میں فی گھرانہ ایک بچہ پالیسی کی خلاف ورزی کے نتیجے میں ایک آٹھ ماہ کی حاملہ خاتون کو اسقاط حمل یا اپنے شوہر کی نوکری میں سے کسی ایک کو بچانا ہو گا۔
چین کے عوامی حلقوں اور سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے 41 سالہ حاملہ خاتون کی حالت زار پر آواز اٹھائی گئی ہے جو دوسرے بچے کا غیر قانونی اسقاط کرانے کا سوچ رہی ہے، کیونکہ پیدائش کی پالیسی کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے اس کے شوہر کو ملازمت سے برطرف کر دیا جائے گا۔
چین کی کمیونسٹ حکومت نے افلاس پر قابو پانے کے لیے 1980ء میں 'ایک کنبہ ایک بچہ' کی سخت پالیسی اختیار کی تھی۔ لیکن خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی بہت سے جوڑوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔
پیدائش کی پابندی پر حالیہ نرمی کے باوجود یہ پالیسی شہروں میں کس قدر سخت ہے، اس بات کا اندازا حالیہ معاملے سے ہوتا ہے، جس میں چین کے صوبے یونان کی رہائشی خاتون چین نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اپنے شوہر کی مقامی پولیس کی نوکری کو برقرار رکھنے کے لیے وہ دوسرے بچے کا اسقاط کرنے کے لیے دباؤ میں آ گئی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کے مطابق، چین نے بتایا کہ "میں خوفزدہ ہوں کیونکہ اگر میرا شوہر مجھے اسقاط حمل کے لیے کہتا ہے تو میں کچھ نہیں کر سکوں گی۔"
البتہ وہ عوامی حلقوں میں اس معاملے کو توجہ ملنے پر بھی بےچین ہے "مجھے فکر ہے کہ اگر حالات بگڑ گئے تو شاید بچہ کھونے کے ساتھ ساتھ میرے شوہر کی نوکری بھی خطرے میں پڑ جائے گی"
چین نے بتایا کہ انھیں رواں برس پیدائش کی پالیسی میں نرمی کی امید تھی، لیکن وہ غیر متوقع طور پر حاملہ ہو گئیں۔
چینی صوبہ یونان میں خاندانی منصوبہ بندی کے سرکاری افسر وین زوپینگ نے بتایا کہ جوڑے کو اسقاط حمل کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن خلاف ورزی کے جرمانے کے بارے میں انھیں آگاہ کر دیا گیا ہے، جیسا کہ پیدائش کی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور اگر سرکاری ملازمتوں پر ہیں تو انھیں برطرف کردیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڑے کو قطعی طور پر اسقاط حمل کے لیے نہیں کہا جائے گا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قوانین توڑنے کی سزا سے بچنے کے لیے جوڑے نے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا ڈرامہ کیا ہے۔
2012ء میں چین کے شانچی صوبے کی ایک 23 سالہ لڑکی کو اسقاط حمل پر مجبور کیا گیا تھا، جس پر مقامی منصوبہ بندی کے حکام کو سزا دی گئی تھی۔
چین میں عوام کی جانب سے جبری اسقاط حمل کو ملک کی خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی موجودہ حقائق کے ساتھ بالکل ہم آہنگ نہیں ہے اور چین ایک عمر رسیدہ معاشرہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک گھرانے کی روزی روٹی چھیننا ایک سنگین سزا ہے، خاص طور پر اس وقت جب خاندان دو بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھا رہا ہو۔
تاہم ماہرین معیشت آبادی پر کنٹرول کو یکسر ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جوڑوں کو ایک بچے کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیئے اور کسی چھوٹ کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے۔
چین میں بہت سے جوڑوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ جوڑے میں سے کسی ایک کا اکلوتی اولاد ہونا ضروری ہے۔
تاہم شہر میں رہنے والے جوڑے جو ناصرف اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں بلکہ خود بھی صرف ایک بچہ پیدا کر سکتے ہیں۔