اسلام آباد میں مبینہ طور پر اغوا کے بعد زبردستی قبول اسلام اور نکاح کروائی جانے والی مسیحی خاتون صائمہ اقبال کو اس کے شوہر نوید اقبال کے حوالے کردیا گیا ہے۔ خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ ملزم نے اسے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔
خاتون صائمہ اقبال اور ان کے شوہر نوید اقبال کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ انہیں ملزم خالدستی نے اغوا کیا اور اس کے بعد انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اگر اسلام قبول نہ کیا اور نکاح نہ کیا تو وہ میرے بچوں اور شوہر کو قتل کردے گا۔
خاتون کے شوہر نوید اقبال نے دو روز قبل ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ اس کی بیوی کو اغوا کرنے کے بعد زبردستی مسلمان کیا گیا۔ اپنے ویڈیو پیغام میں نوید اقبال کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر ''25 فروری کو خالد ستی نامی شخص نے میری بیوی صائمہ کو اسلحے کے زور پر گھر سے اغوا کیا۔ اس کے بعد میں نے مقامی پولیس سے رابطہ کیا اور مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دی۔ لیکن پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ پولیس اہلکار میری بیوی کے حوالے سے غلط باتیں کرتے رہے۔''
نوید اقبال نے کہا ہے کہ ''یکم مارچ کو میں اپنے پورے خاندان کے ساتھ پولیس سٹیشن گیا اور کہا کہ اگر میری ایف آئی آر درج نہ کی گئی تو میں پیٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگا لونگا جس پر پولیس نے ایف آئی آر درج کی اور پانچ مارچ کو میری بیوی صائمہ اقبال کو بازیاب کرایا۔'' نوید اقبال نےکہا کہ ''میرے تین بچوں کی ماں کو بحفاظت گھر واپس بھیجا جائے''۔
نوید اقبال کے مطابق وہ چھپ کر زندگی گزار رہا ہے کیونکہ اسے لگاتار دھمکیاں مل رہی ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور ملزم کا ساتھ دیا اور اب بھی کہا جارہا ہے کہ صائمہ میری بیوی نہیں بلکہ وہ مسلمان ہوچکی اوراس کا نکاح خالد ستی کے ساتھ ہوچکا ۔ میری اٹھارہ سال تک شادی رہی اور میری شادی کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔
پولیس حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیدیا گیا ہے جہاں مدعی کی پوری بات سنی جائے گی۔ اس واقعہ میں گرفتار ملزم خالد ستی اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں موجود ہے۔
مسیحی خاتون کو اغوا کرنے اور زبردستی مسلمان بنانے کے معاملہ پر مسیحی برادی نے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرہ بھی کیا جنہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ملزم خالد ستی،پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اور تفتیشی افسر کے خلاف نعرے درج تھے۔ مسیحی رہنما جمیل کھوکھر نے کہا کہ مسیحی پاکستان کے پرامن شہری ہیں مگر ان کے ساتھ جبری تبدیلی مذہب،جبری زنا جیسے واقعات کا تدارک ہونا چاہیے۔ اس موقع پر متاثرہ خاتون صائمہ اقبال کے شوہر نوید اقبال بھی آئے۔ انہوں نے کہا کہ جس دن سے میری بیوی کو اغوا کیا گیا اس دن سے میں اور میرا پورا خاندان خوف میں مبتلا ہے کیونکہ مجرمان اور پولیس کی جانب سے شدید دباؤ ہے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ پولیس افسران کو معطل کیا جائے اور جوڈیشل کمیشن بنا کر واقعہ کی انکوائری کرکے مجرمان کو سزا دی جائے۔
پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے کئی واقعات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ سندھ میں کئی لڑکیوں کے لواحقین نے الزام عائد کیا کہ ان کی بچیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر ان کے نکاح کردیے جاتے ہیں۔