کراچی —
پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے جرم میں سزائے موت پانے والے ساون مسیح نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو ’من گھڑت‘ قرار دیتے ہوئے رہائی کی اپیل دائر کی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ ’یہ الزامات محض علاقے سے مسیحی برادری کو بے دخل کرنے کے لئے لگائے گئے ہیں‘۔
ساون مسیح کو گزشتہ ہفتے مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔ دائر کردہ الزام میں یہ استفسار کیا گیا تھا کہ گزشتہ سال مارچ میں انھوں نے اپنے ایک مسلمان دوست سے گفتگو کے دوران گستاخانہ کلمات ادا کئے تھے۔ وہ اور ان کا دوست دونوں لاہور کی جوزف کالونی کے رہنے والے ہیں۔
ساون مسیح کے وکیل، نعیم شاکر کے بقول، ’ہم نے ساون کی سزائے موت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ہے، جس میں ان کی جیل سے رہائی کی درخواست بھی شامل ہے‘۔
ساون مسیح کے خلاف الزام سامنے آنے کے بعد کالونی میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران ایک گروہ نے مسیحی برادری کے تقریباً 100 گھروں کو آگ لگا دی تھی۔
واقعے کے بعد، ابتدائی طور پر پولیس نے کہا تھا کہ وہ علاقہ مکینوں کو سیاسی مفادات رکھنے والے عناصر کی جانب سے ’اکسائے جانے کے معاملے‘ کی چھان بین کرے گی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے، اے ایف پی کے مطابق، ساون کے وکیل کا کہنا ہے کہ ’جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا، اس سے واقعے کی شہادت پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں‘۔
اُن کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے عدالت کو بتایا کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات ’من گھڑت‘ ہیں، اور اس حربے کا مبینہ طور پر ایک ہی مقصد ہے ۔۔۔’اور وہ یہ کہ جوزف کالونی کی زمین پر قبضہ کیا جائے اور مسیحی برادری کی وہاں سے بے دخلی ہو‘۔
اے ایف پی کی خبر کے مطابق، پاکستان میں بے حرمتی سے متعلق انتہائی سخت قوانین موجود ہیں۔
ادھر، امریکی حکومت کے ایڈوائزی پینل کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں اسلام یا پیغمبر اسلام کی بے حرمتی سے متعلق قوانین کی تعداد دنیا بھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے‘۔
ادارے کے مطابق، اس وقت گستاخی کے الزام میں سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد 14 ہے، جبکہ 19 افراد عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ملک میں سزائے موت پر عمل درآمد سنہ 2008ء سے رکا ہوا ہے۔ اس دوران، صرف ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔ لیکن، وہ بھی اس لئے کہ ان کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔
ساون مسیح کو گزشتہ ہفتے مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔ دائر کردہ الزام میں یہ استفسار کیا گیا تھا کہ گزشتہ سال مارچ میں انھوں نے اپنے ایک مسلمان دوست سے گفتگو کے دوران گستاخانہ کلمات ادا کئے تھے۔ وہ اور ان کا دوست دونوں لاہور کی جوزف کالونی کے رہنے والے ہیں۔
ساون مسیح کے وکیل، نعیم شاکر کے بقول، ’ہم نے ساون کی سزائے موت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ہے، جس میں ان کی جیل سے رہائی کی درخواست بھی شامل ہے‘۔
ساون مسیح کے خلاف الزام سامنے آنے کے بعد کالونی میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران ایک گروہ نے مسیحی برادری کے تقریباً 100 گھروں کو آگ لگا دی تھی۔
واقعے کے بعد، ابتدائی طور پر پولیس نے کہا تھا کہ وہ علاقہ مکینوں کو سیاسی مفادات رکھنے والے عناصر کی جانب سے ’اکسائے جانے کے معاملے‘ کی چھان بین کرے گی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے، اے ایف پی کے مطابق، ساون کے وکیل کا کہنا ہے کہ ’جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا، اس سے واقعے کی شہادت پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں‘۔
اُن کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے عدالت کو بتایا کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات ’من گھڑت‘ ہیں، اور اس حربے کا مبینہ طور پر ایک ہی مقصد ہے ۔۔۔’اور وہ یہ کہ جوزف کالونی کی زمین پر قبضہ کیا جائے اور مسیحی برادری کی وہاں سے بے دخلی ہو‘۔
اے ایف پی کی خبر کے مطابق، پاکستان میں بے حرمتی سے متعلق انتہائی سخت قوانین موجود ہیں۔
ادھر، امریکی حکومت کے ایڈوائزی پینل کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں اسلام یا پیغمبر اسلام کی بے حرمتی سے متعلق قوانین کی تعداد دنیا بھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے‘۔
ادارے کے مطابق، اس وقت گستاخی کے الزام میں سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد 14 ہے، جبکہ 19 افراد عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ملک میں سزائے موت پر عمل درآمد سنہ 2008ء سے رکا ہوا ہے۔ اس دوران، صرف ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔ لیکن، وہ بھی اس لئے کہ ان کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔