رسائی کے لنکس

آسیہ بی بی کیس: توہین رسالت قوانین پر نئی بحث کا آغاز


آسیہ بی بی کیس: توہین رسالت قوانین پر نئی بحث کا آغاز
آسیہ بی بی کیس: توہین رسالت قوانین پر نئی بحث کا آغاز

پاکستان آسیہ بی بی کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر عالمی خبروں میں ہے۔ آسیہ صوبہ پنجاب کی ایک عیسائی خاتون ہے جسے ایک مقامی عدالت نے آٹھ نومبر کو توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ اسے گزشتہ سال جون میں گرفتار کیا گیا تھا۔

آسیہ کے گاوٴں میں رہنے والے افراد کا کہنا ہے کہ آسیہ نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ ہونے والے ایک مذہبی مباحثے میں پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے تھے۔ تاہم عدالت میں دیئے گئے آسیہ کے بیان کے مطابق گاوٴں کے رہائشی مسلمانوں کی جانب سے آسیہ پر اسلام قبول کرنے کیلئے دباوٴ ڈالا جارہا تھا اور اس کے انکار پر اسے اس مقدمے میں الجھایا گیا۔ آسیہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کے ساتھ اس کے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔

آسیہ کی عمر 45سال ہے جبکہ اس کے پانچ بچے ہیں۔ وہ ضلع ننکانہ کی رہنے والی ہے۔ آسیہ کے شوہر عاشق مسیح کا کہنا ہے کہ وہ سزائے موت کے خلاف لاہورہائیکورٹ میں اپیل دائر کرے گا۔

ملزمہ کو جون 2009میں ایتانوالی گاوٴں سے گرفتار کیا گیاتھا اوراس کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت مقدمے کی سماعت ہوئی۔مقدمے کا فیصلہ سیشن جج نوید اقبال نے سنایا ۔

آسیہ کی سزا کے خلاف سخت رد عمل

انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور عیسائی گروپوں کی جانب سے آسیہ کو سزائے موت سنائے جانے پر سخت ردِ عمل سامنے آیا ہے جبکہ کیتھولک مسیحییوں کے مذہبی پیشوا پوپ بینی ڈکٹ نے حکومت پاکستان سے آسیہ کی رہائی کی اپیل کی ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ بے بنیاد کیس ہے جبکہ جج نوید اقبال نے اپنے فیصلے میں کیس کے جھوٹا ہونے کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کیس میں کسی قسم کے من گھڑت واقعات شامل نہیں ۔

پاکستان میں توہین رسالت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔اس سے پہلے بھی متعدد ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں البتہ کسی خاتون کی جانب سے توہین رسالت کا یہ پہلا واقعہ سامنے آیاہے ۔اس حوالے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا آسیہ کا کیس توہین رسالت قوانین پر نئی بحث چھیڑ دے گا۔

توہین رسالت سے مراداور سزائے موت

توہین رسالت سے مراد پیغمبراسلام کی شان میں گستاخی یااس حوالے سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد کو مجروح کر نا ہے جس کی سزا تعزیرات پاکستان کے تحت موت ہے۔

1973کے آئین میں توہین رسالت کی سزا صرف دو برس تھی جسے بعد میں سزائے موت میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ مذہبی و دینی جماعتوں کا کہنا تھا کہ اسلام میں گستاخ رسول کے لئے معافی کی کوئی گنجائش نہیں لہذا اس کے مرتکب افراد کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے۔

توہین رسالت کے قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ

دوسری جانب حقوق انسانی کے لئے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو ذاتی دشمنی نکالنے کیلئے حربے کے طور پر استعمال کیا جاتاہے لہذا ان تنظیموں کی جانب سے توہین رسالت کے قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اس مطالبے کو تسلیم کئے جانے کے حوالے سے مختلف پہلووٴں پر غور کیا جائے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مطالبہ کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف سیاسی و مذہبی جماعتوں میں مزاحمت کا عنصر بہت زیادہ ہے ۔ مذہبی جماعتوں کے دینی جذبات اور عقائد اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں لہذایہ نہایت حساس معاملہ ہے اور اس کی موجودگی میں کوئی بھی حکومت اس قانون میں ترمیم کا سوچ بھی نہیں سکتی اور اگر جبری کسی حکومت نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو اس اقدام کو آتش فشاں کے دھانے پرآگ لگانے سے تعبیر کیا جائے گا۔دینی جماعتوں کے تئیں مسلکوں کے حوالے سے لاکھ اختلافات ہو ں مگر توہین رسالت کے حوالے سے تمام جماعتیں ایک سوچ کی حامل ہیں اس لئے کئی عشروں تک قوانین رسالت میں تبدیلی کا خواب دیکھنا عبث ہے۔

ماضی میں ڈنمارک میں توہین آمیزخاکوں کی اشاعت کے خلاف نکالی جانے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے اس بات کی دلیل کی ہیں۔پھرفیس بک پر پابندی، مغربی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ ، یوم مذمت اور یوم عزم جیسے اقدامات کو گزرے ابھی کچھ ہی ماہ بیتے ہیں لہذا یسی صورت حال میں آسیہ کیس کے حوالے سے حقوق انسانی کی تنظیموں کا خیال پورانہیں ہوسکتا۔

قوانین میں تبدیلی کی وجہ

مذہب سے گہری دلچسپی رکھنے والے ایک مبصر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا ہے : "میرے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی قوانین کمزور ہیں ، اگر ملکی قوانین مضبوط ہوں تو لو گ ایسی گستاخی کی ہمت ہی نہ کریں۔ نہ گستاخیاں ہوں گی نہ اس کے خلاف آواز اٹھے گی۔ دنیا بھر کے دیگر اسلامی ممالک میں توہین رسالت سے متعلق قوانین میں ترمیم کی کوئی بات اسی لئے نہیں نکلتی ہے کہ وہاں کہ قوانین اسلامی یا اس قدر مضبوط ہیں کہ کوئی مسئلہ کھڑا ہی نہیں ہوتا"

پاکستان میں بین المذاہب مکالموں کی ضرورت

دراصل پاکستان میں انٹرفیتھ مذاکرات یا بین المذاہب مکالموں کا رواج عام نہیں ہے اس وجہ سے بھی لوگوں کے ذہن میں ایک دوسرے کے مذاہب کے بارے میں غلط تصورات پروان چڑھ جاتے ہیں۔ مفاد پرست عناصر اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام فرقوں اور مذاہب کو قریب آنے نہیں دیتے جس سے مذہبی رواداری کی فضاپوری طرح قائم نہیں ہوپاتی اوراکثر ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں اور گوجرہ جیسے واقعات پیش آجاتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق انٹرفیتھ مذاکرات کے ذریعے ہی مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے اور یہ مذاکرات مذاہب کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گو کہ سیکورازم کی کوئی جگہ نہیں بنتی لیکن اپنے اپنے دور کی ہر حکومت اقلیتوں، خواتین اور تمام شہریوں کے بنیادی حقوق پر یقین رکھتی آئی ہے اور وہ اقلیتوں سمیت معاشرے کے تمام طبقوں کے ساتھ مساوی سلوک اپنائے ہوئے ہے۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

پاکستان کے وفاقی وزیربرائے اقلیتی امورشہبازبھٹی کا اس ضمن میں کہنا ہے صورتحال کی بہتری کے لئے کوششیں جاری ہیں اوراس سلسلے میں اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے توہین رسالت قوانین میں ترمیم کاوعدہ کیاہے اوران قوانین کواس طرح تبدیل کیاجائے گاکہ ان کی مددسے کسی کونقصان نہ پہنچایاجاسکے۔ان کایہ بھی کہناہے کہ وہ اس پرکام کررہے ہیں اورسال رواں کے آخرتک توہین رسالت قانون میں ترمیم کردی جائے گی۔

وفاقی وزیرکا یہ بھی کہنا ہے کہ مذہبی مفاہمت حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور جمہوری حکومت اقلیتوں کے حقوق کے خلاف تفریقی قانون کو منسوخ کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کررہے ہیں کہ رواں سال کے آخر تک ناموس رسالت کے قانون کا جائزہ لیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ نئے قانون کے تحت ناموس رسالت کی جھوٹی شکایت کرنے والے کو بھی برابر کی سزا دی جاسکے گی۔

وفاقی وزیر کا یہ بیان حقوق انسانی کی تنظیموں اور خود اقلیتوں کے لئے امید کی ایک کرن ہے تاہم یہ کرن پوری طرح کب روشن ہوگی یہ آنے والا وقت ہی بتا سکے گا۔

XS
SM
MD
LG