پاکستان کے مقتول صوبائی گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے کو کرسمس کے موقع پر ایک پیغام کے بعد ملنے والی دھمکیوں پر انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
جب کہ لاہور کے علاقے اسلام پورہ کے پولیس اسٹیشن میں شان تاثیر کے ویڈیو پیغام کے تناظر میں ایک نامعلوم شخص کے خلاف توہین مذہب کے الزام کے تحت مقدمہ درج کروایا گیا، جس کی تفتیش جاری رہے۔
پولیس کا کہنا ہے مذکورہ ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کیا جائے گا تاکہ یہ اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ جو ویڈیو شیئر کی گئی وہ اصلی ہے اور اس میں موجود شخص شان تاثیر ہی ہے۔
سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ پر اپنے صفحے پر ایک ویڈیو پیغام پوسٹ کیا تھا جس میں کرسمس کی مبارکباد کے علاوہ توہین مذہب کے جرم میں قید افراد بشمول مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے لیے دعا کا بھی کہا تھا۔
واضح رہے کہ چار جنوری 2011 کو اُس وقت کے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اُن کے ایک سرکاری محافظ ممتاز قادری نے اسلام آباد میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
سلمان تاثیر نے بھی توہین مذہب کے قانون کے تحت عدالت سے سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات کی تھی اور ملک میں مروجہ قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔
پانچ بچوں کی والدہ آسیہ بی بی کو 2009ء میں پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں مسلمان دیہاتی خواتین کے ساتھ بحث و تکرار کے دوران اسلام اور پیغمبر اسلام سے متعلق مبینہ توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں 2010ء میں ایک ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جسے بعد میں عدالت عالیہ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر نے کہا ہے کہ اُنھیں اپنے کرسمس پیغام کے بعد دھمکیاں ملی ہیں۔
اُدھر بعض سخت گیر مذہبی حلقوں کی طرف سے شان تاثیر کے بیان پر اُن کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان یعنی ’ایچ آر سی پی‘ کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کی دھمکیاں باعث تشویش ہیں۔
’’شان تاثیر کو سکیورٹی تو دینی ہی چاہیئے، مگر حکومت کو اُن تنظیموں سے بھی نمٹنا چاہیئے جو اس طرح کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔۔۔۔۔ یہ تو قانون میں نہیں ہے کہ توہین مذہب کے قوانین پر تنقید جرم ہے۔‘‘
اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ ملک میں عدم برداشت کے رویوں کو فروغ دینے والوں کے خلاف سخت اور مثالی کارروائی ضروری ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قانون کے بارے میں بحث ایک حساس معاملہ ہے اور بعض سخت گیر تنظیموں کی طرف سے دھمکیوں کے خوف کی وجہ سے لوگ اس قانون کے بارے میں کھلے عام بات کرنے سے کتراتے ہیں۔