رسائی کے لنکس

امریکی ایجنسیوں کا کنٹریکٹ ملازمین پر انحصار


پتہ چلا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جس نے کہا ہے کہ اس نے گولی اس لیے چلائی کہ اسے لوٹے جانے کا خطرہ تھا سی آئی اے کا کنٹریکٹر ہے۔
پتہ چلا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جس نے کہا ہے کہ اس نے گولی اس لیے چلائی کہ اسے لوٹے جانے کا خطرہ تھا سی آئی اے کا کنٹریکٹر ہے۔

پاکستان میں ایک امریکی کو دو افراد کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کیس کی وجہ سے پاکستان میں شدید ناراضگی پھیل گئی ہے اور واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ پتہ چلا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جس نے کہا ہے کہ اس نے گولی اس لیے چلائی کہ اسے لوٹے جانے کا خطرہ تھا سی آئی اے کا کنٹریکٹر ہے۔ امریکی ایجنسیاں عملے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کنٹریکٹروں پر انحصار کرنے لگی ہیں۔

تجزیہ کارکہتےہیں کہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں، محکمۂ خارجہ اور ملٹری، عراق، افغانستان اور پاکستان جیسے ملکوں میں روز بروز کنٹریکٹ ملازمین پر زیادہ انحصار کرنے لگی ہیں۔ یہ کنٹریکٹرز لوگوں اور کنوائے کی حفاظت سے لے کر انٹیلی جنس کو جمع کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے تک ہر قسم کے کام کرتے ہیں۔

انٹیلی جنس کی پرائیویٹ فرم سٹارفر کے وائس پریزیڈنٹ سکاٹ سٹیورٹ کہتے ہیں کہ کنٹریکٹرز کے استعمال سے امریکی حکومت کو شورش زدہ علاقوں میں عملے کے اتار چڑھاؤ سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔’’ آپ محکمۂ خارجہ کے سیکورٹی بجٹ کو دیکھیں اور سی آئی اے کے بجٹ کو دیکھیں۔ ان میں مد و جذر آتے رہتے ہیں۔ اور جب وہ وقت آتا ہے کہ ان کا بجٹ بہت کم ہو جاتا ہے تو عملے کو نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کنٹریکٹرز کی تعداد میں کمی کرنا کہیں آسان ہوتا ہے اور اس طرح پریشانی بہت کم ہوتی ہے‘‘۔

لیکن کنٹریکٹرز کے استعمال سے عملے کی تعداد میں لچک تو پیدا ہو جاتی ہے لیکن سیکیورٹی کے لیے کنٹریکٹرز کا استعمال متنازعہ اور بہت سے ملکوں کو ناگوار ہے۔ بعض کنٹریکٹرز پر سویلین آبادی کی ہلاکت سمیت قابلِ اعتراض طرز عمل کا الزام لگایا گیا ہے۔

افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے ملک سے سیکورٹی کنٹریکٹرز کو نکالنے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ڈائریکٹریٹ نے ان تمام کنٹریکٹرز کا حساب مانگا ہے جو پاکستان میں سرگرم ہیں۔ بعض کنٹریکٹرز پر کروڑوں ڈالر کی چوری کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

شیان اینگبرچ ایک کمپنی کے مالک ہیں جو سیکورٹی کنٹریکٹرز کو تربیت دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کی ایجنسیاں جس طرح اپنے ملازمین کو کنٹرول کرتی ہیں، اس طرح وہ کنٹریکٹرز کو کنٹرول نہیں کر سکتیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز لائسنس شدہ ہونے چاہئیں۔ ’’ہم یا تو یہ کر سکتے ہیں کہ سب کنٹریکٹرز کو مذاکرات کی میز پر بلائیں، اور ان کے ساتھ بیٹھ کر یہ طے کریں کہ کام کس طرح کیا جائے گا اور سیکورٹی کمپنیاں محکمۂ دفاع اور محکمۂ خارجہ کے کام کا حصہ کیسے بنیں گی یا پھر ہم اس تمام معاملے کو آزاد چھوڑ سکتے ہیں تا کہ ہر چھوٹی بڑی کمپنی اپنے طریقے سے کام کرے جس کا نتیجہ افرا تفری، بد عنوانی، اور نا دانستہ طور پر لوگوں کی ہلاکت کی شکل میں نکلے گا‘‘۔

سیکورٹی کنٹریکٹر کی حیثیت سے پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کے ذمے کیا کام تھا یہ بات واضح نہیں ہے ۔ طبع شدہ رپورٹوں کے مطابق، وہ کم سے کم لاہور میں ایک گھر میں رہائش پذیر سی آئی اے کے افسروں اور کنٹریکٹروں کو سیکورٹی ضرور فراہم کر رہا تھا ۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ وہ انٹیلی جنس کی کارروائیوں میں زیادہ فعال کردار ادا کر رہا تھا یا نہیں۔

لیکن سٹیورٹ کہتے ہیں کہ امکان یہی ہے کہ اپنی کارروائیوں کو خفیہ رکَھنے کے لیے ، سی آئی اے سفارت خانے کے افسروں کے بجائے ذاتی سیکورٹی کے لیے اپنے عملے کو ہی استعمال کرنا چاہے گی۔ ’’سچی بات یہ ہے کہ جہاں تک سی آئی اے کا تعلق ہے انہیں اپنی سرگرمیوں کے بارے میں محتاط ہونا پڑتا ہے۔ اگر ان کے پاس عملہ ہو تو وہ سارا کام خود ہی کرنا چاہیں گے۔ اور وہ آفس آف سیکورٹی سروسز کے افسروں میں کنٹریکٹ کے ملازمین کے ذریعے اضافہ کر لیں گے‘‘۔

اینگبرچ جو خود بھی عراق میں سیکورٹی کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں کہتے ہیں کہ اصول یہی ہے کہ پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے استعمال سے سی آئی اے اور اس قسم کی کارروائیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ قائم ہو جاتا ہے۔’’ آپ اس قسم کا جتنا بھی کام باہر دے سکیں، اتنا ہی آپ کے لیے یہ آسان ہو جاتا ہے کہ آپ اس سے مکر جائیں۔ سی آئی اے کو یہ انتظام بہت پسند ہے ۔ سی آئی اے کہہ سکتی ہے کہ وہ تو بس ایک سویلین کنٹریکٹر ہے۔ وہ ہماری سویلین ٹیم کا رکن ہے لیکن وہ حقیقت میں ہم میں سے نہیں ہے ۔ اس طرح وہ اپنے پہنچ میں اضافہ کر سکتے ہیں اور ان کے لیئے مجموعی خطرے میں بھی اضافہ نہیں ہوتا‘‘۔

امریکہ نے بار بار کہا ہے کہ ڈیوس سفارت خانے کے انتظامی اور ٹیکینکل عملے کا رکن ہے اور اس بنا پر وہ سفارتی استثنا کا مستحق ہے۔

XS
SM
MD
LG