کراچی کے ساحل کے ساتھ ساتھ بہتے بحیرہ عرب کو شہر سے نکلنے والے ندی نالوں سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایک جانب سمندری آلودگی بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب سمندری حیات کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں جبکہ تمر کے درختوں کو بھی ایک طرح کا 'گھن' لگ گیا ہے۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر، ہاشم رضا زیدی کا کہنا ہے کہ گھروں، دفاتر، فیکٹریوں، کارخانوں اور دیگر جگہوں سے نکلنے والا گندا پانی ندی نالوں سے ہوتا ہوا بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر برد ہورہا ہے۔ یہ انسانوں، سمندری مخلوق، ماحول اور جنگلات تک کے لئے زہر ہے۔
ایم ڈی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مطابق، 'ایک دن میں ساڑھے تین سو ملین گیلن گندا پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں پھینکا جارہا ہے کیوں کہ شہر میں فی الحال کوئی ٹریٹمنٹ پلانٹ کام نہیں کر رہا، حالانکہ دو نئے ٹریٹمنٹ پلانٹ زیر تکمیل ہیں۔ ان میں سے ایک پلانٹ ماڑی پور میں اوردوسرا پلانٹ سندھ انڈسٹریل اسٹیٹس یعنی سائٹ کے علاقے میں تکمیل کے مراحل طے کررہا ہے۔'
ہاشم رضا زیدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'محمود آباد اور کورنگی میں بھی ایک ، ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ پہلے سے موجود ہے۔ لیکن، یہ دونوں فی الحال غیر فعال ہیں۔'
وائس آف امریکہ کے نمائندے کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں کئے جانے والے سروے سے واضح ہوتا ہے کہ شہر میں 2 ندیاں، 13 بڑے اور 250 کے لگ بھگ چھوٹے برساتی نالے ہیں جن کے ذریعے شہر بھر کی غلاظت، گٹر کا پانی ، اسپتالوں اور فیکٹروں کا کچرا اور انسانی و جانوروں کا فضلہ وغیرہ بلا روک ٹوک سمندر میں گرایا جا رہا ہے۔ درمیان میں کوئی بھی ٹریٹمنٹ پلانٹ ایسا نہیں جو اس کچرے کو سمندر میں جانے سے روک سکے۔
ایک دیرینہ شہری مشتاق کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے گجر نالے کے کنارے لیاقت آباد میں مقیم ہیں۔ وہ آٹو مکینک ہیں اور ان کی شاپ بھی گجر نالے کے ہی کنارے واقع ہے۔ ان کا کہنا ہے 'شہر کا سب سے بڑا نالہ’ گجر نالہ ‘ہے جو صباسنیما نیو کراچی سے شروع ہو کر لیاری ندی میں گرتا ہے۔'
گجر نالے کے علاوہ شہر کے دیگر نالوں میں سولجر بازار، فریئرٹاوٴن، چکورہ، گولڈن ٹاوٴن، کورنگی، پچرکالونی، اورنگی ٹاوٴن، منظور کالونی، موچکو اور حب ریور روڈ سے گزرنے والے نالے شامل ہیں۔ یہ تمام نالے ملیر اور لیاری نام سے مشہور دو ندیوں میں جاکر ملتے ہیں جو آخر میں بحیرہ عرب میں جاگرتی ہیں۔
سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شہر میں تقریباً نصف درجن صنعتی علاقے ہیں جن سے خارج ہونے والے پانی میں کرومیم، زنک اور پارہ عام طور سے قابل ذکر حد تک شامل ہوجاتا ہے۔ یہاں تیل صاف کرنے کے کارخانے اور دیگر صنعتیں قائم ہیں، جو نائٹروجن اور سلفر کے آکسائیڈز، کاربن ڈائی آکسائیڈ، سوڈیم کلورائیڈ، جانوروں کے بال، خون وغیرہ اپنے فضلے یا پانی میں خارج کرتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق، ان صنعتوں سے خارج ہونے والے گندے پانی اور فضلے سے سب سے اہم ماحولیاتی نقصان، کراچی کی ساحلی پٹی پر واقع تمر کے جنگلات کو ہورہا ہے جن کی تباہی سے آبی حیات متاثر ہورہی ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق اگر فوری طور پر غیر فعال اور نئے ٹریٹمنٹ پلانٹس نے کام شروع نہیں کیا، تو اس سے پھیلنے والی تباہی کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ لہذا، یہ مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے۔