کراچی کا تاریخی ’نیٹی جیٹی‘ پل کسی دلچسپ کہانی سے کم نہیں۔ اس پل سے روزانہ ہزاروں لاکھوں لوگ گزرتے ہیں جن میں سے بیشتر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو منتوں، مرادوں کی تکمیل کے لئے یہاں آتے ہیں۔ انہیں چیلوں کو گوشت کھلانا ہو یا مچھلیوں کو آٹا یا پھر کووٴں اور کبوتروں کو دانا ڈالنا ہو ۔۔۔تمام کاموں کے لئے ’نیٹی جیٹی‘ کا پل ہی ’کارآمد‘ سمجھا جاتا ہے۔
لیکن، ان سب کاموں کی’تکمیل‘ کے بعد، اس پل کے نیچے سے گزرنے والے سمندر کو اگر کچھ ملتا ہے تو وہ ہے۔۔آلودگی۔
اِسی شہر میں رہنے والے ایک مشہور آرکیٹیکٹ، عارف حسن بتاتے ہیں ’نیٹی جیٹی‘ کا پل برطانوی راج میں غالباً 1854ء کے آس پاس جنرل سر چارلس نیپئر نے تعمیر کرایا تھا، جس کا بنیادی مقصد شہر کو بندرگاہ سے جوڑنا تھا۔ یہی پل شہر کو کیماڑی سے ملانے کا بھی سبب ہے۔‘
سنہ 1996 میں، اسی پل کے قریب بننے والے ایک اور جدیدترین ’جناح برج‘ کے بعد، اس پل سے انتظامیہ اور حکام بالا کی نظر یکسر ہٹ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پل ہر لمحہ وہاں سے گزرنے والے کنٹینرز اور ہیوی ٹریفک سے مسلسل ہوا میں ہچکولے لیتا رہتا ہے۔ لیکن، منتوں کی چاہ میں یہاں آنے والے شاید ان ہچکولوں سے بھی نہیں ڈرتے۔
آج بھی یہاں سے ہر روز انگنت لوگ گزرتے ہیں۔ کوئی بیٹے کی چاہ میں۔۔ کوئی بیٹی کی چاہت میں۔۔ تو کوئی تعویز، گنڈے، کالے جادو اور کسی کی محبت کو پانے کے لئے پل پر رک کر آٹے کی ٹکیاں مچھلیوں اور گوشت کے ٹکڑے خرید کر چیلوں کے لئے ہوا میں اچھالتا ہے۔
گوشت کے لوتھڑے سمندر میں گرنے سے پہلے ہی چیلیں جھپٹ لیتی ہیں۔ لیکن، پھر بھی بہت بڑی تعداد میں یہ گوشت سمندر برد ہوجاتا ہے جو بلاخر سمندری آلودگی کا سبب اور آبی حیات کے لئے سنگین خطرہ بنتا ہے۔
نمائندے کی جانب سے یکجا کی گئی معلومات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اگست 2013میں نیٹی جیٹی پل کے قریب سے ہی انگنت مردہ مچھلیاں پائی گئیں، جو بہہ کر ساحل پر آگئی تھیں۔ اس کے سبب پورے علاقے میں تعفن پھیل گیا۔ یہاں تک کہ بیماریاں پھوٹنے کا خطرہ بھی پیدا ہونے لگا، جس کے بعد، کراچی پورٹ ٹرسٹ کے مزدوروں نے مردہ مچھلیوں کو ہٹانے کا کام انجام دیا۔ انہوں نے کشتیاں بھر بھر کے مردہ مچھلیوں کو وہاں سے منتقل کیا۔
مچھلیوں کے اتنی بڑی تعداد میں مرنے کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ سمندری آلودگی ہی تھی اور چونکہ پاکستان سے بڑی تعداد میں مچھلی درآمد بھی کی جاتی ہے۔ لہذا، اس معاشی و تجارتی پہلو کو بھی بھاری مالی نقصان کی مد میں دیکھا جاتا ہے۔
پل پر ہی کھڑے ایک ادھیڑ عمر شخص، شمیم اور ان کے بیٹے وقاص نے دودھ اور کھوئے کی بنی گولیاں سمندر میں ڈالنا شروع کیں تو نمائندے کے استفسار پر اُنھوں نے بتایا: ’کل محرم کی دس تاریخ تھی، جس میں نذر نیاز کی غرض سے دودھ اور کھوئے سے ملکر ’چم چم‘ بنانے کا ارادہ تھا۔ لیکن، کاریگر اناڑی تھا جس کی وجہ سے تقریباً تین ہزار روپے کا کھویا اور دودھ برباد ہوگیا۔ ہم نے سوچا ضائع کرنے سے بہتر ہے اللہ کی کسی دوسری مخلوق کے پیٹ میں چلا جائے ۔۔بس یہ سوچ کر ہی یہاں چلے آئے۔‘
شمیم اور وقاص کی طرح ہی بے شمار لوگ ایسے ہیں جو مختلف مقدس اور متبرک سمجھی جانے والی چیزوں کی عمر پوری ہونے پر انہیں کہیں اور ضائع کرنے کے بجائے سمندر برد کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔
ان چیزوں میں غذائی اجناس کے علاوہ مختلف قسم کے سوکھے ہوئے پھول، مرحوم یا عرصے تک بیمار رہنے والے افراد کے استعمال شدہ کپڑے، تعویز، مقدس اوراق، دینی کتابیں، منتی دھاگے، بری نذر اتارنے کی غرض سے استعمال کی جانے والی ہری مرچیں، لیموں، نوزائیدہ بچوں کے بال، قیمتی سکے اور دیگر دھاتی اشیاء وغیرہ شامل ہیں۔
یہ تمام چیزیں ’سمندر کا سینہ‘ زخمی کر رہی ہیں۔ پل کے اوپر سے کھڑے ہوکر دیکھیں تو بھی اس کا پانی انتہائی کالا اور میلا دکھائی دیتا ہے۔ جوں جوں یہ پانی آگے بڑھتا ہے اس میں تیری ہوئی اشیاٴ سمندر کو آلودہ کرتی چلی جاتی ہیں۔ سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔
شہر کے ایک بزرگ رہائشی عبدالجبار نے بتایا کہ: ’لوگوں کی جانب سے چیلوں کو گوشت کھلانے اور مچھلیوں کو آٹا کھلانے کی رسم بہت پرانی ہے۔ کچھ لوگ اسے ’صدقہ‘ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح بیماروں کو شفا ملتی ہے۔۔اور جو بھی منت مانو پوری ہوتی ہے۔۔یہ ایک رسم ہے جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے۔اب ان رسوم و روایات اور رواجوں کی حقیقت کیا ہے ۔۔۔یہ مجھے نہیں معلوم ۔۔۔!!“
پل سے جڑی روایات اور رسموں کی حقیقت کچھ بھی ہو۔۔سچ یہ ہے کہ نقصان سمندر کا ہورہا ہے۔۔ شکار آبی مخلوق ہو رہی ہے۔
دنیا بھر میں سمندر حدت کم کرنے اور موسموں کو اعتدال میں رکھنے کا بڑا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن، پاکستان میں بغیر کوئی مناسب طریقہ اختیار کئے کارخانوں کا زہریلا پانی، جانوروں اور انسانوں کا فضلا، اسپتالوں کا انتہائی نقصان دہ کچرا، گھروں سے نکلنے والا کوڑا کرکٹ۔۔گلاسڑا گوشت، پرندوں کو کھلائی جانے والی اجناس، سمندری کیچڑ، گلی ہوئی لڑکی، دھاتیں اور بے شمار دیگر اشیاٴ۔۔سب کے سب سمندر کے دامن کو داغدار بنا رہے ہیں۔
داغ بھی ایسا جس کا کوئی علاج نہیں۔۔ ہاں احتیاط، محتاط پسندی اور سب سے بڑھ کر عوامی آگاہی اس مسئلے کا واحد حل ہوسکتا ہے۔ لیکن، اس کے لئے بھی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔۔