رسائی کے لنکس

فوج کو پابند کریں گے کہ وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے: چیف جسٹس


چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہم فوج کو پابند کریں گے کہ وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور سینئر قانون دان اعتزاز احسن سمیت دیگر نے سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے کورکمانڈرز کانفرنس میں آرمی تنصیبات پر حملوں کے ذمہ داران کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کے فیصلہ کی توثیق کی تھی جس کے بعد 102 افراد کو ملٹری حکام کے حوالے کردیا گیا ہے۔

ان افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی ہونی ہے۔ تاہم سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے باعث حکومت کے مطابق اب تک کسی بھی شخص کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔

جمعرات کو سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے۔

اس دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 175 اور 3/175 کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتا۔

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آئین میں ایسی اور کوئی شق ہے جس کی بنیاد پر آپ بات کر رہے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عام شہریوں کا کسی جرم میں آرمڈ فورسز سے تعلق ہو تو ملٹری کورٹ ٹرائل کر سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون اور آئین میں واضح لکھا ہے کہ یہ قانون ان افراد سے متعلق ہے جو آرمڈ فورسز کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت میں 2015 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہا اور کہا کہ اس فیصلے میں فوجی تنصیبات پر حملے کا ذکر بھی موجود ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایسے افراد کے لیے کیا ایک متوازی جوڈیشل بنا دیا گیا۔ ایکس کلوسو دائرہ اختیار ملٹری کورٹس کو دیا گیا تاکہ کوئی کہہ نہ سکے کہ انسداد دہشت گردی عدالت ٹرائل کیوں نہیں کر رہی۔

سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میں تو یہی سمجھا ہوں کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹس عدالت کی کٹیگری میں آتے ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں آئین میں ترمیم اس لیے کرنا پڑی تب ملزمان کا آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں تھا۔ اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئینی ترمیم اس لیے ضروری نہیں کہ موجودہ ملزمان اور آرمڈ فورسز کے درمیان تعلق موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ آپ نے اچھی تشریح کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں لکھا ہے کورٹ مارشل ملک کے خلاف جنگ کرنے والوں کے لیے ہے۔ قانون کی موجودگی کے باوجود بھی 2015 میں قانون لایا گیا۔ قانون کی موجودگی میں ترمیم لانا سمجھ نہیں آتی۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلق جوڑنے کے حوالے سے کوئی معیار تو ہونا چاہیے۔ آپ شہریوں کے بنیادی حق کم کر ہے ہیں تو اس کا کوئی معیار تو ہونا چاہیے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ متوازی عدالتی نظام کے حوالے سے خدشات اپنی جگہ ہیں۔ اپنے دلائل میں متوازی عدالتی نظام کے بارے میں بھی بتائیے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اپیل دینے کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ اپیل میں دشمن ممالک کے جاسوس، دہشت گرد، آرمڈ فورسز کے ممبران کو بھی مدِ نظر رکھنا ہے۔

ان کے بقول "میں اپنا بیان ہیڈکوارٹرز کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی جانب سے دے رہا ہوں۔"

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نو مئی جیسا واقعہ ہوا۔ پہلی تحریکوں میں فوج کی تنصیبات پر حملے نہیں ہوتے تھے۔ کیا یہ کہا جائے کہ فوج پر حملہ ہو تو وہ جواب سے پہلے اس کی ایف آئی آر کٹوائے۔ فوجی جوان کو حملے کے جواب میں صرف ایک چیز گولی چلانا آتی ہے۔

اس دوران اعتراز احسن نے کہا کہ اگر ایسا تھا تو گولی چلائی کیوں نہیں۔

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک نازک صورتِ حال سے گزر رہا ہے اور یہ عدالت بھی۔ آپ نے ساری صورتِ حال اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ جنہوں نے اس عدالت کو فعال بنانے میں مدد کی ان کے لیے دل میں احترام ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ بہت سنجیدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ میاںوالی ایئربیس کی دیوار گرائی گئی۔ وہاں میراج طیارے کھڑے تھے۔ چیف جسٹس کے بقول "میں نہیں چاہتا کہ افواجِ پاکستان شہریوں پر بندوقیں تانے۔ فوج کا کام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ میرے ایک ساتھی جج نے ایک اہم ذمہ داری نبھائی ہے میں یہاں بتانا نہیں چاہتا۔ کچھ ججز کو صحت کے سنگین مسائل ہوسکتے ہیں۔ کچھ ججز کو چھٹیوں کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی امور چلتے رہنے چاہئیں۔ اس لیے دل سے کوشش کر رہا ہوں۔

فورم

XS
SM
MD
LG