پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے دورِ حکومت میں 29 افراد کو فوجی عدالتوں سے سنائی گئی سزاؤں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم کی جانب سے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی گئی درخواست میں وفاق، سابق وزیرِ اعظم عمران خان، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید، فوج کے قانونی شعبے جیگ برانچ اور چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے رجسٹرار کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موؐقف اختیار کیا گیا ہے زیرِ التوا مقدمات کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایک شہری کو 2020ء میں سزائے موت، ایک کو 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ دیگر ملزمان کو فوجی عدالتوں نے 5 سے 10 سال کی سزائیں سنائیں۔
یہ درخواست ایسے وقت میں دائر کی گئی ہے جب پاکستانی فوج نے نو مئی کو افواجِ پاکستان کی تنصیبات پر حملہ کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے والوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے 102 افراد اس وقت فوج کی تحویل میں ہیں۔
سینئر وکیل اعتزاز احسن، سابق چیف جسٹس آٖف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
آرمی ایکٹ ہے کیا اور کس پر لاگو ہوتا ہے؟
پاکستان کے آرمی ایکٹ 1952 کے تحت اس قانون کا اطلاق صرف فوج سے تعلق رکھنے والے افراد پر ہوتاہے۔ لیکن بعض مواقع پر اس کا اطلاق سویلینز پر بھی ہوتا ہے۔پاکستان آرمی کے جج ایڈووکیٹ جنرل جسے عرف عام میں 'جیگ برانچ' کہا جاتا ہے وہ اس صورتِ حال میں ٹرائل کرتے ہیں۔
اس قانون کے تحت پاکستانی فوج کے خلاف جنگ کرنے والوں ،سول و فوجی تنصیبات پرحملہ کرنے والے افراد، بیرون ملک اور اندرون ملک سے دہشت کا ماحول پیدا کرنےوالوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔