چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ آئین پر عمل درآمد ان کا فرض ہے اور وہ یہ فرض ادا کرتے رہیں گے۔
وائس آف امریکہ کےنمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے لیے اعلیٰ عدالت کے حکم پر الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر نظرثانی کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا لیکن جس انداز میں سیاسی قوتیں کام کر رہی ہیں یہ درست نہیں۔ سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کے عمل کو دوبارہ شروع کریں۔
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے باہر پی ڈی ایم جماعتوں کے احتجاج کے تناظر میں استفسار کیا کہ لوگ عدالت کا دروازہ پھلانگ رہے ہیں اور حکومت بے بس ہے، آئین ہی جمہوریت کی بنیاد ہے اور ہم سب ایک فرض کی امید کرتے ہیں۔ہمیں سیاست کے بارے میں معلوم نہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین میں موجود بنیادی حقوق پر کیسے عمل ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’رواں برس فروری میں جب انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی تو اس وقت ایک پہلو تھا جس کی خلاف ورزی ہو رہی تھی، لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اٹارنی جنرل بتائیں کہ مذاکرات کیوں شروع نہ ہو سکے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کے سپریم کورٹ کے حکم پر دائر کردہ نظر ثانی درخواست میں مؤقف اپنایاہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دے کر اختیارات سے تجاوز کیا۔ سپریم کورٹ قانون کی تشریح کرسکتی ہے خود قانون نہیں لکھ سکتی۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے مؤقف پر استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے فنڈز اور سیکیورٹی کا مسئلہ بتایا تھا اور آج سپریم کورٹ کے دائرۂ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل کے لیے کتنا وقت چاہیے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ دلائل کے لیے تین سے چار گھنٹے چاہئیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم تمام فریقین کو سنیں گے۔
سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 14 مئی گزر چکا ہے۔ آئین کا انتقال ہوچکا ہے۔ نگران حکومتیں اب غیر آئینی ہو چکی ہیں۔ عدالت اپنے فیصلے پر عمل کرائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ حتمی ہو جائے پھر عمل درآمد کروائیں گے۔
عدالت میں سماعت کے موقع پر الیکشن کمیشن کی درخواست پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے یہ مؤقف اپنایا ہی نہیں تھا جو نکات پہلے نہیں اٹھائے کیا وہ اب اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مناسب ہوگا یہ نکات کسی اور کو اٹھانے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار کا نکتہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں اٹھایا تھا۔ وفاقی حکومت یہ نکتہ اٹھا سکتی تھی لیکن انہوں نے نظرثانی دائر ہی نہیں کی۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ نظرثانی درخواست میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کا مؤقف سننا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کرکے سنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کرایا جائے۔ عدالت نے جو حکم دیا ہے وہ حتمی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بعض نکات غور طلب ہیں ان پر فیصلہ کریں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن شرجیل سواتی نے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں ہوتا۔ آئینی مقدمات میں دائرہ اختیار محدود نہیں ہوسکتا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی مدِنظر رکھیں گے کہ نظرثانی میں نئے نکات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں۔ آئین ہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ ہم سب ایک فرض کی امید کرتے ہیں کہ جو ہر ایک کو نبھانا ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین پر عمل درآمد سب کا فرض ہے۔ آئین کی عمل داری اور خلاف ورزی کے درمیان لوگ کھڑے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کی زندگی کا تحفظ ضروری ہے۔ میں نے لوگوں کو گولیاں لگنے کی فوٹیج بھی دیکھی ہے۔ ایگزیکٹو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلیٰ معیار برقرار رکھیں۔ آئین پر عمل درآمد لازمی ہے۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور خیبرپختونخوا کو بھی نوٹس جاری کرکے سماعت 23 مئی تک ملتوی کردی۔