پاکستان میں قائداعظم کے انتقال کے اگلے روز بھارت نے حیدرآباد دکن کی آزاد ریاست پر فوج کشی کی۔ نظام دکن کے پاس مقابلہ کرنے کے لیے کوئی فوج نہیں تھی۔ ان کی حکومت نے ہتھیار ڈال دیے۔ بھارت نے ان کے تمام اثاثوں پر قبضہ کر لیا۔
بھارتی فوج کی پیش قدمی اور قبضہ مکمل ہونے کے دوران ایک اہم واقعہ ہوا جس کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ نظام دکن نے لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر کے بینک اکاؤنٹ میں ایک ملین پاؤنڈ جمع کرائے۔ بھارت کو خبر ہوگئی اور اس نے رقم پر اپنا دعویٰ کردیا۔ انگلینڈ کے بینک تک یہ مطالبہ پہنچا تو اس نے رقم کو منجمد کردیا۔ اس کے بعد سے یہ مقدمہ لندن کی عدالت میں ہے۔
نظام دکن میر عثمان علی خان دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔ ٹائم میگزین نے 1937 میں ان کی تصویر اپنے سرورق پر شائع کی اور اس پر سرخی جمائی، دنیا کے امیر ترین آدمی۔ ایک اندازے کے مطابق 1940 کے عشرے میں وہ لگ بھگ 2 ارب ڈالر کے مالک تھے۔ لیکن بھارت نے ریاست حیدرآباد پر قبضہ کرنے کے بعد ان کی 97 فیصد دولت چھین لی تھی جس میں قیمتی جواہرات بھی شامل تھے۔
نظام کی حیدرآباد میں موجود دولت ضبط کرنے کے باوجود بھارتی حکومت ان ایک ملین پاؤنڈ کو نہیں بھولی جو انھوں نے لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحیم تولا کے اکاؤنٹ میں منتقل کی تھی۔ وہ رقم آج بھی اسی بینک میں محفوظ ہے اور سود سمیت 35 ملین پاؤنڈ ہوچکی ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم تقریبا سات ارب روپے بنتی ہے۔
رقم جمع کرائے جانے کے ایک ہفتے بعد، جب حیدرآباد پر بھارت کا قبضہ ہوچکا تھا، بینک کو نظام کی درخواست موصول ہوئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ رقم واپس کی جائے اور اس پر پاکستان کا کوئی حق نہیں۔ خیال غالب ہے کہ بھارت نے رقم کی واپسی کے لیے نظام دکن پر دباؤ ڈالا تھا۔ بینک نے رقم کسی فریق کو دینے کے بجائے اسے منجمد کردیا۔
میر عثمان علی خان کا انتقال 1967 میں ہوگیا لیکن لندن میں مقدمہ جاری رہا۔ سات عشروں کے دوران رقم کے 120 دعوے دار سامنے آچکے ہیں۔ ان میں ایسی خواتین کی اولاد بھی شامل ہے جن سے نظام نے شادی نہیں کی۔ بھارتی حکومت علیحدہ فریق بن کر سامنے آئی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ ریاست حیدرآباد کی وارث ہونے کی وجہ سے رقم اسے ملنی چاہیے۔
پاکستان کا موقف یہ ہے کہ نظام دکن نے اسے رقم تحفے میں نہیں دی بلکہ انھوں نے بھارتی فوج سے لڑنے کے لیے ہتھیار خریدے تھے۔ اس مقصد سے نظام نے ایک برطانوی ہواباز فریڈرک سڈنی کو مقرر کیا جنھوں نے کراچی سے حیدرآباد دکن ہتھیار پہنچانے کے لیے 35 چکر لگائے۔ نظام دکن نے ان ہتھیاروں کے عوض پاکستان کو ایک ملین پاؤنڈ ادا کیے تھے۔ تاریخی شواہد سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔
2016 میں لندن کی ایک عدالت نے فیصلہ سنایا تھا کہ پاکستان کا موقف درست ہے اور رقم پر اس کا حق ہے۔ لیکن یہ معاملہ لندن ہائیکورٹ پہنچ گیا۔ حال ہی میں ایک بار پھر سماعت کے بعد چھ ہفتوں میں فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ہائیکورٹ کا جو بھی فیصلہ ہو، فریقین سپریم کورٹ میں ضرور اپیل کریں گے۔ اگر پاکستان مقدمہ ہارا تو بھارت کے اندر سو سے زیادہ دعوے داروں میں نئی قانونی جنگ شروع ہوجائے گی۔