یمن کے ساحلی شہر حدیدہ میں اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے طے پانے والی جنگ بندی نافذ ہوگئی ہے لیکن اب بھی شہر کے بعض علاقوں سے جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
حوثی باغیوں اور یمنی حکومت کے نمائندوں نے سوئیڈن میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد جمعرات کو جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔
یمنی حکام اور شہریوں کے مطابق جنگ بندی پیر اور منگل کی درمیان شب 12 بجے مؤثر ہوگئی تھی جس سے قبل شہر کے بعض علاقوں میں فریقین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
اطلاعات کے مطابق شہر کے جنوبی اور مشرقی حصوں میں ہونے والی جھڑپوں میں توپ خانے اور بھاری اسلحے کا استعمال کیا گیا۔
لیکن جنگ بندی کے نفاذ کے بعد حکومت کے حامی دستوں اور حوثی باغیوں کے درمیان جاری جھڑپوں کی شدت میں کمی آئی ہے۔
لیکن شہر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اب بھی شہر کے بعض علاقوں سے وقفے قفے سے مشین گنوں کی فائرنگ کی آواز سنائی دے رہی ہے۔
حکومت کے حامی ایک ذمہ دار نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ شہر کے مشرقی ضلعے کے بعض حصوں میں بدستور لڑائی جاری ہے۔ اس علاقے پر 2014ء سے حوثی باغیوں کا قبضہ ہے۔
جنگ بندی کے تحت دونوں فریقین کی حامی فورسز تین ہفتوں کے اندر شہر سے نکل جائیں گی جس کے بعد شہر کا کنٹرول اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں غیر جانب دار مبصرین کو سونپ دیا جائے گا۔
حدیدہ یمن کا چوتھا بڑا شہر اور بحیرۂ احمر پر واقع اس کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق یمن میں جاری خانہ جنگی سے متاثرہ افراد کے لیے 70 فی صد سے زائد خوراک اور امداد حدیدہ کی بندرگاہ کے ذریعے ہی آتی ہے لیکن شہر میں جاری لڑائی کے باعث اس امداد کو آگے پہنچانے میں دشواری ہو رہی ہے۔
فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں قائم فورس شہر پر کنٹرول کے بعد ان راستوں کو کھلے روکنے پر مامور ہوگی جن کے ذریعے امدادی سامان ملک کے دیگر علاقوں تک بھیجا جائے گا۔
معاہدے کے تحت دونوں فریقین 20 جنوری سے قبل اپنی تحویل میں موجود ایک دوسرے کے 16 ہزار سے زائد قیدیوں کو تبادلہ بھی کریں گے۔
یمن میں خانہ جنگی کا آغاز 2014ء میں اس وقت ہوا تھا جب ایران کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ قبائل نے ملک کی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا تھا۔
خانہ جنگی 2015ء میں اس وقت شدت اختیار کرگئی تھی جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان کے دیگر اتحادی عرب ممالک نے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کی حمایت میں حوثیوں کے خلاف فضائی اور زمینی حملے شروع کردیے تھے جو تاحال جاری ہیں۔
یمن میں جاری لڑائی میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جب کہ بعض امدادی اداروں کا خیال ہے کہ ملک میں جاری قحط اب تک پانچ سال سے کم عمر کے 85 ہزار بچوں کی جان لے چکا ہے۔
اقوامِ متحدہ یمن کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دے چکی ہے۔عالمی ادارے کے مطابق یمن بری طرح قحط کا شکار ہے اور اس کی 80 فی صد آبادی مناسب خوراک، صاف پانی اور طبی سہولتوں سے محروم ہے۔