آب و ہوا کی تبدیلی کے موضوع پر لوگ دو واضح گروپوں میں بٹ گئے ہیں۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو اس عام خیال سے متفق ہیں کہ دنیا میں حدت بڑھ رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان بڑی مقدار میں زمین سے نکلنے والا قدرتی ایندھن جلا رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یا تو دنیا میں حدت بڑھنے کے تصور کو مکمل طور سے رد کرتے ہیں، یا جنہیں اس تصور کے بعض حصوں سے اختلاف ہے۔
امریکہ کا نیوز میڈیا بھی اس بحث میں شامل ہو گیا ہے۔ عوامی میڈیا میں دنیا میں بڑھتی ہوئی گرمی کے خطرے پر زور دیا جاتا ہے جب کہ قدامت پسند میڈیا میں زیادہ توجہ ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو سائنسی اور سیاسی لحاظ سے اس تصور پر شک و شبہے کا اظہار کرتے ہیں۔
اخبار لاس انجیلیس ٹائمز نے اس مہینے کے شروع میں اطلاع دی کہ امریکن جیوفیزیکل یونین کانگریس کے قدامت پسند ارکان کے خلاف مہم شروع کر رہی ہے۔
لیکن اس غیر جانبدار تنظیم نے اس خبر پر اعتراض کیا ہے۔ بلکہ ایک محقق منی سوٹا کی سینٹ تھامس یونیورسٹی کے جان ابراہم نے کہا ہے کہ ہم اس معاملے میں آپس کے تنازعات سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس بحث میں شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
اگر ہم اپنے ساتھی سائنسدانوں اورعام پبلک کے خلاف الزام تراشیاں اور حملے شروع کردیں، تو اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جان ابراہم کہتے ہیں کہ ان کا گروپ جس میں کئی سائنسداں شامل ہیں عالمی حدت پر شک و شبہے کا اظہار کرنے والوں پر تنقید کیے بغیر، صحیح معلومات اور اس مسئلے کو صحیح سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہے۔
لیکن جان ابراہم یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاستداں اور خبروں پر تبصرہ کرنے والے ایسے لوگ جو آب و ہوا کی تبدیلی کے مسئلے کو ایک ڈھونگ سمجھتے ہیں، عام لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ وہ خود اور دوسرے سائنسداں جو اس ٹاسک فورس میں شامل ہیں اس خطرے کا بالکل صحیح جائزہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔
’’آب و ہوا کے موضوع پر کام کرنے والے ستانوے فیصد سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دنیا میں حدت میں اضافہ انسانوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے اور یہ مسئلہ موجود ہے۔ لیکن اگر آپ سڑک پر جائیں اور عام لوگوں سے پوچھیں تو تقریباً پچاس فیصد لوگ عالمی حدت کو مسئلہ سمجھتے ہیں جب کہ باقی پچاس فیصد کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائنسداں جو کچھ جانتے ہیں اورعام لوگوں کی جو معلومات ہیں ان کے درمیان واضح خلا موجود ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ یہ خلا پُر ہو جائے‘‘۔
لیکن رائے عامہ آب و ہوا پر تحقیق کرنے والے ان سائنسدانوں کی رائے سے بھی متاثر ہوتی ہے جو ہیں تو اقلیت میں لیکن جو کہتے ہیں کہ عالمی حدت کسی تباہی کا پیش خیمہ نہیں ہوگی۔ یونیورسٹی آف الاباما کے جان کرسٹی ایسے ہی ایک سائنسداں ہیں۔
’’سائنس کوئی مقبولیت کا مقابلہ نہیں ہے۔ سائنس کا مقصد ہے صحیح اعداد و شمار حاصل کرنا اور ہم یہاں اعداد و شمار کے سیٹ اور ٹیسٹ کرنے کے ماڈل تیار کرتے ہیں۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ماڈل حقیقت کے مطابق نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی عظیم تباہی نہیں آنے والی ہے‘‘۔
کرسٹی ان لوگوں میں بھی شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ عالمی حدت سے نمٹنے کے لیے جو حل تجویز کیے گئے ہیں وہ غیر حقیقی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زمین سے نکلنے والے قدرتی ایندھن کا کوئی موئثر متبادل موجود نہیں ہے اور خاص طور سے غریب ملکوں میں توانائی کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔
’’میں افریقہ میں رہ چکا ہوں اور میں نے وہاں انتہائی غربت میں رہنے والوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں توانائی کی مانگ مسلسل بڑھتی جائے گی۔ کاربن والی توانائی سب سے کم خرچ ہے اور میرا خیال ہے کہ کینکن Cancun جیسے مقامات پر ہونے والی میٹنگوں میں جو بھی فیصلے کیے جائیں فضا میں کاربن کی مقدار روز بروز بڑھتی جائے گی‘‘۔
اس قسم کی باتوں سے وہ لوگ طیش میں آ جاتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے سمندر کی سطح میں زبردست اضافہ ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں زندگی کی بہت سی اقسام معدوم ہو جائیں گی اور شاید انسانی تہذیب تباہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے ہفتے کینکن میں جمع ہونے والے لوگ، شاید ناقدین اور شک و شبہے میں مبتلا لوگوں کا نام بھی نہ لیں۔ ان کے لیے بحث و مباحثے کا وقت ختم ہو چکا ہے ۔ یہ کام کرنے کا وقت ہے۔
اگلے ہفتے دنیا بھر کے نمائندے میکسیکو کے شہر کینکن Cancun میں آب و ہوا کی تبدیلی کے موضوع پر اقوام متحدہ کی تازہ ترین کانفرنس میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں۔ سائنسدانوں کی بہت بڑی اکثریت آب و ہوا کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں متفق ہے لیکن عام لوگ الجھن اور اختلاف کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1