اگرچہ کوپن ہیگن میں آب و ہوا کے بارے میں گذشتہ سال کی کانفرنس میں بعض امور پر اتفاق رائے ہوا، لیکن کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو سکا جس کے ذریعے دنیا کے ملکوں کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی حد کا پابند کیا جا سکتا۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے پر اتفاق رائے موجود ہے، لیکن دنیا کے ملک ایسے اقدامات کے پابند ہونا نہیں چاہتے، جن سے ان کے خیال میں ان کی اپنی اقتصادی ترقی متاثر ہو سکتی ہے۔
کلائمنٹ ایکشن نیٹ ورک انٹرنیشنل کے ڈیوڈ ٹرن بُل کہتے ہیں ’’اس میں اقوامِ متحدہ کا کوئی قصور نہیں ہے، نہ ہی اتفاقِ رائے پر مبنی سسٹم میں کوئی خرابی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملکوں کی اندرونی سیاست کی وجہ سے سمجھوتے کو آخری شکل دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ Cancun میں بھی، کوئی ایسی سمجھوتہ نہ ہو سکے جو مکمل، منصفانہ اور جرأت آمیز ہو اور جس کی پابندی سب پر لازم ہو۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر سیاسی حالات کی تبدیلی کے لیے کام کریں، اور حکومتوں کو احساس دلائیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنا ان کے اپنے مفاد میں ہے۔‘‘
ٹرن بُل کہتے ہیں کہ Cancun کی میٹنگ کے شرکاء کو ایسے منصوبوں پر توجہ دینی چاہیئے جن سے غریب ملکوں میں اقتصادی ترقی کومتاثر کیے بغیر، گیسوں کے اخراج کو کم کیا جا سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ غریب ملک کم کاربن والے، یا زیرو کاربن والے ترقیاتی منصوبوں پرعمل کریں۔ ایک شعبہ جس میں Cancun میں پیشرفت ہو سکتی ہے وہ جنگلات کو بچانے کا ہے۔ سائنس داں کہتے ہیں کہ دنیا میں گرمی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بلا دریغ جنگلات کی کٹائی ہے۔ ٹرن بُل کو یہ توقع بھی ہے کہ آب و ہوا کا ایک عالمی فنڈ قائم کیا جائے گا جس سے گرین ہاؤس گیسوں کے بخارات کو کم کرنے کے پراجیکٹس اور ٹکنالوجی کو ترقی دی جائے گی۔
سائنس دانوں کو سب سے زیادہ تشویش تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملکوں، جیسے چین اور بھارت میں فیکٹریوں، بجلی گھروں اور گاڑیوں سے نکلنے والے بخارات میں اضافے پر ہے۔ چین اب کاربن اور گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ گذشتہ سال کی کانفرنس میں اس نے خود کچھ اقدامات کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایسے شواہد ملے ہیں کہ اس نے اس وعدے پر پوری طرح عمل نہیں کیا ہے۔
رائس یونیورسٹی کے تجزیہ کارنیل لین کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں عالمی سطح پر جو بھی اقدامات کیے جائیں گے ان میں چین کے رویے کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔ اصل چیلنج یہ ہوگا کہ چین نے گذشتہ سال کوپن ہیگن میں جو وعدے کیے تھے وہ ان پر قائم رہے اور ظاہر ہے کہ اوباما انتظامیہ نے جن چیزوں پر اتفاق کیا تھا وہ ان پر عمل کرے۔
تا ہم، جب تک ایسے سمجھوتےنہ ہوں جن کی پابندی سب پر لازم ہو، یہ طے کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ کوئی ملک موئثر اقدامات کر رہا ہے یا نہیں، اور اگر وہ ایسا نہ کرے، تو اس کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ نیل لین صدر کلنٹن کے سائنس کے مشیر رہ چکے ہیں اور وہ آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں شروع کی کانفرنسوں میں کام کر چکے ہیں۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ Cancun کی کانفرنس سے ملکوں کے درمیان زیادہ اعتماد پیدا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات اہم ہے کہ تمام ملک شفاف اور کھلے طریقے سے اپنے اقدامات کے بارے میں بتائیں۔ اکثر بظاہر معقول تجاویز پر بھی اتفاق رائے نہیں ہو سکتا کیوں کہ ملک ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔
لین کہتے ہیں کہ چند برس پہلے تک، انہیں اس بارے میں شبہ تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کتنے خراب ہو سکتے ہیں، لیکن سائنسی شواہد نے انہیں اس خطرے کی سنگینی کے بارے میں قائل کر دیا۔
’’جب میں نے ان لوگوں سے بات کی جو آب و ہوا کی سائنس پر کام کر رہے تھے، جو درجۂ حرارت میں تبدیلی کی پیمائش کر رہے تھے، سمندر کی سطح میں اضافے اور آب و ہوا کے ماڈل پر کام کر رہے تھے، تو مجھے پتہ چلا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں سب سے زیادہ تشویش ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی نتائج پر سب سے زیادہ خوفزدہ یہی لوگ تھے۔ اس طرح میری توجہ اس مسئلے پر مبذول ہوئی۔‘‘
نیل کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ Cancun میں پیشرفت ہوگی، کیوں اس پر دنیا کے مستقبل کا دارومدار ہے ۔