ورلڈ بینک نے عالمی حدت کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے غریب ممالک کی امداد دوگنی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
موسمیاتی تغیر سے متعلق عالمی بینک کے سربراہ جان روم نے فرانسیسی خبررساں ادارے کو بتایا ‘‘ اگر ہم نے (گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم نا کیا اور ان کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل نا کیا تو 2030ء تک خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں 10 کروڑ افراد کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔
روم نے متبنہ کیا کہ ‘‘ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم نے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے صرف تین خطوں افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ میں مستعدی سے کام نا کیا تو موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے 13 کروڑ 30 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنی پڑے گی۔’’
عالمی بینک کی طرف سے اس معاونت کا مقصد مضبوط مکانوں کی تعمیر، صاف پانی کے نئےذرائع کو تلاش کرنا اور موسمیاتی تغیرات کو مد نظر رکھتے ہوئے زراعت کے مروج طریقوں میں تبدیلی لانا شامل ہے۔
بینک کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پولینڈ کے شہر کاٹوویسٹا میں موسمیاتی تغیر سے متعلق کانفرنس کا آغاز ہوا ہے۔ دو ہفتوں تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں 200 ممالک کے نمائندے شرکت کریں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیاتی تبدیلی کی سربراہ پیٹریشیا اسپینوزا نے اتوار کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہونے والی کانفرنس کے آغاز پر کہا کہ عالمی حدت کا خطرہ‘‘کبھی بھی اتنا سنگین نہیں رہا ہے۔’’
انہوں نے کہا ‘‘یہ سال اب تک ریکارڈ کیے گئے گرم ترین چار سالوں میں سے ممکنہ طور پر ایک ہے۔ موسمیاتی تغیر کے اثرات بھی اتنے سنگین نہیں رہے۔ یہ حقیقت ہم پر واضح کرتی ہے کہ ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ـ ’’
دنیا کے 200 ممالک سے وفود 2015ء میں پیرس میں طے پانے والے اہم سمجھوتے پر عمل درآمد کے معاملے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک نے گرین ہاؤس گیسوں کو اخراج کو کم کرنے اور 2030ء عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کو دو ڈگری سیلسئس سے کم رکھنے کا عہد کیا تھا۔
پولینڈ کے ماحولیات کے نائب وزیر مائیکل کرتیکا نے گزشتہ ہفتے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کو بتایا کہ ‘‘ بادی النظر میں یہ ایک ناممکن کام ہے۔’’
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ہم سب پر انحصار کر رہے ہیں۔ لیکن (اس کے لیے) کوئی متبادل منصوبہ موجود نہیں ہے۔’
عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ہونے والی کانفرنس کو اس وقت تقویت ملی جب بیونس آئرس میں ہونے والی جی 20 کانفرنس میں شرکت کرنے ممالک میں سے 19 نے موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کا عہد کیا ہے۔
تاہم صرف امریکہ نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ صدر ٹرمپ پیرس معاہدے سے الگ ہونے کی اس وجہ سے دھمکی دے چکے ہیں کیونکہ ان کے بقول اقتصادی نقصان کا باعث بننے والی معاہدے کی بعض شرائط ہیں۔ ٹرمپ کوئلے اور جوہری توانائی کو فروخ دینے کے حامی ہیں اور انہوں نے پیرس سمجھوتے پر دوبارہ بات چیت کی تجویز دی ہے جس بات سے کئی ممالک اتفاق نہیں کرتے ہیں۔
دوسری طرف میزبان ملک پولینڈ تیل، گیس اور کوئلےکے استعمال کو بتدریج کم کرنے کی متوقع پر تجویز کرے گا تاکہ آلودگی کا باعث بننے والے توانائی کی ذرائع کے استعمال کے کم ہونے والے اقتصادی نقصان کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔
اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک کی طرف سے ایسے منصوبے پیش کرنے کی توقع کی جارہی ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو حدت میں ہونے والے اضافے سے نمٹ سکیں۔