رسائی کے لنکس

دھرنا ختم نہیں ہوا، عمران خان کی کال تک جاری رہے گا: وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا


تحریکِ انصاف کے اسلام آباد میں پیر کو شروع ہونے والے احتجاج کی قیادت علی امین گنڈاپور اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہی تھیں۔
تحریکِ انصاف کے اسلام آباد میں پیر کو شروع ہونے والے احتجاج کی قیادت علی امین گنڈاپور اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہی تھیں۔

  • آپ جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ ہماری نسلوں کی جنگ ہے۔ اگر عمران خان آج جیل میں ہیں تو وہ ہمارے لیے ہیں؛ علی امین گنڈاپور کا کارکنوں سے خطاب
  • ہلاک کارکنوں کے لواحقین کے لیے ذاتی حیثیت میں فی کس ایک کروڑ روپے کا اعلان کرتے ہیں: علی امین گنڈاپور
  • ہمیں جلسوں اور احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی اور جب انصاف کے لیے عدالتوں میں جاتے ہیں تو انہیں وہاں سے بھی انصاف نہیں ملتا؛ رہنما پی ٹی آئی کا دعویٰ

ویب ڈیسک — وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کا دھرنا ختم نہیں ہوا اور یہ دھرنا ایک تحریک ہے جو عمران خان کی کال تک جاری رہے گا۔

مانسہرہ میں بدھ کو کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ دھرنا کہاں جاری ہے۔

تحریکِ انصاف کے اسلام آباد میں پیر کو شروع ہونے والے احتجاج کی قیادت علی امین گنڈاپور اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہی تھیں۔

منگل کی شب پولیس اور رینجرز کے کریک ڈاؤن کے بعد پی ٹی آئی کے مظاہرین اسلام آباد چھوڑ گئے تھے جب کہ متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تاہم علی امین گنڈاپور اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اس دوران وہاں سے مانسہرہ پہنچ گئے تھے۔

مانسہرہ میں اپنے خطاب کے دوران علی امین گنڈاپور نے کارکنوں سے کہا کہ آپ جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ ہماری نسلوں کی جنگ ہے۔ اگر عمران خان آج جیل میں ہیں تو وہ ہمارے لیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسلام آباد میں مظاہرین پر تشدد نہ ہوتا تو وہ بھی اس کا جواب نہ دیتے۔ ہم پُرامن مارچ کر رہے تھے تو ہمارے راستے میں رکاوٹیں کیوں ڈالی گئیں اور گولیاں کیوں برسائی گئیں۔

علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا کہ احتجاج کے دوران ان کے متعدد کارکن ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے اپنے دعوے کے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔

پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں احتجاج کو 'فائنل کال' کا نام دیا تھا۔ تاہم پیر سے شروع ہونے والے احتجاج کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 10 سے زائد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہلاک کارکنوں کے لواحقین کے لیے ذاتی حیثیت میں فی کس ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کرتے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت کو جلسوں اور احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی اور جب وہ انصاف کے لیے عدالتوں میں جاتے ہیں تو انہیں وہاں سے بھی انصاف نہیں ملتا اور نہ ہی احتجاج کے لیے اسمبلی کا فلور ملتا ہے۔

اسلام آباد احتجاج کا حوالے دیتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ "ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ جلسے کی اجازت نہ دی جائے تو ہم وہاں جا کر احتجاج کر کے اپنا بیانیہ دیں۔"

XS
SM
MD
LG