حال ہی میں ’’کوک اسٹوڈیو ایکسپلورر پاکستان‘‘ کے نام سے گیارھویں سیزن کا آغاز کیا گیا ہے جس کا مقصد پاکستان کی دور دراز اور غیر معروف آ وازوں کو پہچان دینا ہے جو آج سے پہلے کسی نے نہیں سنی ہیں۔
اس نئے پروگرام کے پروڈیوسر ذوہیب قاضی اور علی حمزہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا سفر کوک سٹو ڈیو ایکسپلورر کے ساتھ شروع ہوا․ یہ دس سال کے بعد کوک سٹو ڈیو میں ایک نیا ماڈل ہے۔ اس پروگرام کا مقصد ایسے گمنام لوگوں کی مدھر آوازوں کو متعارف کرانا ہے جو ملک کے دور افتادہ علاقوں میں اپنے فن کا جادو جگاتے ہیں۔
علی حمزہ کا کہنا تھا کہ وہ اندرون سندھ کے دیہی علاقے میں گئے اور وہاں سے ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھنے والے بہن بھائی وشنو اور شمو بائی کے ساتھ اُنہوں نے گانا رکارڈ کیا ۔ پھر اس کے بعد وہ بلوچستان گئے۔ وہاں گائیکی کی ایک خاص قسم ہے جسے اُنہوں نے اکسپلور کیا۔ پھر وہ چترال گئے۔ وہاں اُنہوں نے نوجوان منفرد اور خوبصورت آوازوں والی آریانا اور آمرینا کو ڈھونڈا اور ان کا گانا رکارڈ کیا۔ علی حمزہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اُن کے شو کو چار چاند لگا دئے۔ اس کے بعد وہ کشمیر گئے۔ وہاں اُنہیں الطاف میر اور کسا میر کا ایک کشمیری بینڈ ملا۔ یہ بینڈ خاص کشمیری زبان میں گاتا ہے۔
زوہیب قاضی کا کہنا ہے کہ اُنہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ اُنہیں ٹیلنٹ کہاں ملے گا۔ لیکن اُن کی کوشش جاری رہتی ہے۔ ابھی حال میں اُنہوں نے 14 اگست کے حوالے سے ایک گانا بھی رکارڈ کرایا ۔
یاد رہے کہ کوک اسٹوڈیو کا آغاز آج سے دس سال پہلے ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے کیا جس کا مقصد قوالی، لوک گیت اور صوفیانہ کلام سمیت مختلف زبانوں کی موسیقی کو نئے انداز میں پیش کرنا تھا جسے ملک کے مشہور گلوکاروں نے اپنے اپنے انداز میں گایا۔ اسکے ساتھ ساتھ کوک سٹو ڈیو پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں اہم کردار ادا کررہا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر بھی لائک اور فالو کیا اور دن بہ دن اس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔