چارسدہ کے علاقے شبقدر میں نجی کالج میں طالب علم نے فائرنگ کرکے پرنسپل کو مار دیا، ایف سی نے ملزم گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کردیا۔
تفصیلات کے مطابق شبقدر کے نجی کالج اسلامیہ کالج کے پرنسپل سریر خان کو بارویں جماعت کے طالب علم فہیم سے چھٹیاں کرنے کی وجہ پوچھی جس پر طیش میں آکر طالب علم نے فائرنگ کرکے پرنسپل کو شدید زخمی کر دیا۔پرنسپل کو بعد ازاں تشویشناک حالت میں پشاور منتقل کر دیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔ ملزم کو ایف سی کے جوانوں نے موقع پر گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کر دیا۔
مقتول کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہے کہ وہ گذشتہ مہینے اسلام آباد فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے حوالے سے منعقدہ خادم حسین رضوی کے احتجاج میں شرکت کیلئے کیلئے گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کالج سے تین دن تک غیر حاضر رہا۔غیر حاضری پر کالج کے پرنسپل کی طرف ڈانٹ پڑنے پر ملزم نے طیش میں آکر پرنسپل سریر پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہوئے پستول سے فائر کر کے ہلاک کردیا۔
گرفتاری کے وقت ملزم نعرے لگا رہا تھا کہ اُس نے توہین رسالت کے مرتکب کو انجام تک پہنچایا ہے مگر دوسری طرف کالج ذرائع کا کہنا ہے کہ پرنسپل سریر خان صوم وصلاۃ کے پابند تھے اور انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی تھی اور ملزم کی طرف سے توہین رسالت کے حوالے سے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔
ادھر چارسدہ پولیس کے ڈی پی او ظہور خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مقتول کے بھانجے حارث کی مدعیت میں ملزم کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کردیا گیا ہے۔لیکن چونکہ تفتیش ابتدائی مراحل میں ہے اس لئے قتل کی اصل وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہوسکیں۔
ظہور خان نے میڈیا سے صرف افوہوں کی بنیاد پر خبریں نہ نشر کرنے کی اپیل کی ہے۔
پاکستان میں توہین رسالت انتہائی نازک معاملہ رہا ہے اور بہت سے افراد بغیر کسی تحقیقات یا ثبوت کے موت کے گھاٹ اُتار ے جا چکے ہیں۔ گزشتہ سال مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک طالب علم مشال خان کو سوشل میڈیا پر توہین رسالت کا مرتکب ہونے کے شبہے میں ایک ہجوم نے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور بہت سے حلقے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کرنے لگے۔ مشال خان کے قتل کے بعد تحقیقات کیلئے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مشال خان توہین رسالت کا مرتکب نہیں ہوا تھا اور اُس پر یہ الزام جھوٹا تھا۔
1990 سے اب تک توہین رسالت کے الزام میں 65 افراد ہجوم کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔