’روبوٹ لیب‘ دم دار تارے سے ہوتے ہوئے سورج کی جانب گامزن ہے۔ یہ لیب جسے ’فِلے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، گذشتہ نومبر میں دمدار تارے 67Pپر اترا تھا، اور اُس کی اصل خلائی گاڑی ’روزیٹا‘ قریبی محور میں گردش کر رہی ہے۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ مشن کی مدد سے اِس کائنات کی تخلیق کے بارے میں مزید انکشافات سامنے آئیں گے۔
جمعرات کو دم دار تارہ P67سورج کے قریب ترین ہوگا، یعنی شعلے دار بھڑکتے ہوئے سورج سے18 کروڑ 60 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر۔
شمسی حدت کے باعث کئی ہفتوں سے دم دار تارے کی سطح گرم ہوتی جا رہی ہے، جس سے گیس اور دھویں کے ذرات نکل رہے ہیں۔
’فِلے‘ اور ’روزیٹا‘ پر نصب سینسر غیرمعمولی ’مولیکیولز‘ کے ذرات کے تجزئے کا کام انجام دے رہے ہیں، خاص طور پر وہ جو دم دار ستارے کے عام طور پر یخ بستہ چھلکے کے نیچے چھپے ہوئے ہوسکتے ہیں۔
دوری کے باعث، زمین پر ڈیٹا کے پہنچتے پہنچتے سائنس دانوں کو کئی ہفتے، یا پھر کئے ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
یورپی خلائی ادارے نے فرانس کے علاقے گیانہ سے، جہاں یہ اس کا صدر دفتر واقع ہے، ’روزیٹا مشن‘ دو مارچ، 2004ء کو روانہ کیا گیا تھا۔ یہ اگست، 2014ء کو دم دار تارے پر پہنچا۔
جب ’روبوٹ لیب‘ وہاں اُترا تو وہ ایک کھائی میں جا گری، جہاں سے پھسل کر وہ سایہ دار اوٹ کی جانب جا گری، جس کے نتیجے میں اُس کی بیٹریاں ریچارج ہونے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ ’اسٹینڈبائی موڈ‘ میں جانے سے قبل، وہ ڈیٹا روانہ کر رہا تھا۔
ایسے میں جب سورج دم دار تارے کے قریب پہنچا، لیب کی بیٹریاں پھر سے چارج ہونے لگیں، اور جون میں وہاں سے دو منٹ کا ایک پیغام نیچے پہنچا۔ تاہم، نو جولائی سے فلے پھر خاموش ہے۔
دم دار تارہ 67Pجب سورج کے نزدیک سے گزرے گا، روزیٹا پھر سے لیب کے ساتھ رابطے کی کوشش کرے گا۔ زمین پر بیٹھے سائنس دانوں کی ٹیمیں بے چینی سے اس کی منتظر ہیں۔