پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) کے 178 ارکان کی حمایت کا ووٹ حاصل کر لیا ہے۔ تاہم حزبِ اختلاف کی جماعتیں اعتماد کے ووٹ کی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیرِ صدارت ہفتے کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے عمران خان پر اعتماد کی قرار داد پیش کی۔
حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ کی وجہ سے ایوان کی کارروائی کے دوران اپوزیشن بینچز خالی رہیں۔ حکومتی ارکان نے اسپیکر کی ہدایت کے مطابق ایک لابی میں جا کر وزیرِ اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان کو 342 کے ایوان میں 172 اراکین کی حمایت درکار تھی۔ ایوان میں حکومتی اتحاد کے ووٹوں کی کُل تعداد 180 تھی جس میں سے وزیرِ اعظم عمران خان نے 178 ارکان کی حمایت حاصل کی۔
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد قیصر نے اسپیکر ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالا جب کہ رکن اسمبلی فیصل واوڈا کے استعفے کی وجہ سے ان کا ووٹ ویکینٹ رہا۔
یاد رہے کہ اگست 2018 میں عمران خان قومی اسمبلی سے 176 ووٹ لے کر وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے۔
قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد ایوان سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے عمران خان نے ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
'الیکشن کمیشن کے بیان پر صدمہ ہوا'
اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ بیلٹ کا مقصد حفیظ شیخ کو ہرانا تھا۔ الیکشن کمیشن پاکستان کی ایجنسیز سے بریفنگ لے۔ اُسے پتا چلے گا کہ سینیٹ انتخابات میں کتنا پیسا چلا۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کی خواتین ارکان کو سینیٹ انتخابات میں ووٹ کے بدلے دو کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایجنسیز سے بریفنگ لے تاکہ اسے اس طرح کا بیان جاری نہ کرنا پڑے کہ ادارے کی آزادی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا "الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ بہت اچھے الیکشن کرائے جس پر بہت صدمہ ہوا۔ اگر یہ الیکشن اچھا ہے تو برا کیا ہوتا ہے۔"
یاد رہے کہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار حفیظ شیخ کی شکست کے بعد عمران خان نے الیکشن کمیشن پر تنقید کی تھی۔
وزیرِ اعظم کی تنقید کے جواب میں الیکشن کمیشن نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں عمران خان کے الزامات مسترد کر دیے تھے۔
ہفتے کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نواز شریف، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کی۔
وزیرِ اعظم نے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف اُنہی الزامات کو دہرایا جس کا ذکر وہ اکثر اپنی تقریروں میں کرتے ہیں۔
عمران خان نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی پاکستان کے کرپٹ ترین شخص ہیں جن کے وزیرِ اعظم بننے سے پہلے اور بعد کے اثاثے دیکھ لیں، پتا چل جائے گا کہ انہوں نے کتنی کرپشن کی۔
یاد رہے کہ یوسف رضا گیلانی تین مارچ کو سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشست پر کامیاب ہوئے تھے اور وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے پر وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی جماعت کے ارکان اور اتحادیوں کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی اُس وقت مضبوط ہوتی ہے جب مشکل وقت سے نکلتی ہے۔ ہر مشکل وقت میں اتحادیوں نے ساتھ دیا اور اب ہماری ٹیم مضبوط ہوتی رہے گی۔
حزبِ اختلاف کا عمران خان سے عوام سے براہِ راست ووٹ لینے کا مطالبہ
پاکستان میں حزب اختلاف کے رہنماؤں نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو مسترد کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ اعتماد کی بحالی کے لیے عوام سے براہ راست ووٹ حاصل کیا جائے۔
حزب اختلاف جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) نے وزیرِ اعظم عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی اجلاس میں شریک ہونے کی بجائے اسلام آباد میں سندھ ہاؤس میں اجتماع کیا۔
اراکینِ پارلیمنٹ کے اس اجتماع سے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے خطاب کیا اور وزیر اعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہرایا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اب پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیرِ اعلی پنجاب کو کب منصب سے ہٹانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس پارلیمان کا اعتماد نہ کل تھا اور نہ آج ہے۔
ان کے بقول ڈھائی سال سے ملک ہائیبرڈ نظام سے چل رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پیش آنے والے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے واقعات جمہوریت، سیاست اور نظام کے لیے خطرہ ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر مریم نواز نے حزب اختلاف کے اراکینِ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے انتخاب جیتنے سے حکومت سیاسی موت مر چکی ہے۔ جلد عمران خان کی حکومت رخصت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ان اراکین سے دھونس کے ذریعے اعتماد کا ووٹ لیا جنہیں وہ کہہ چکے تھے کہ انہوں نے سینیٹ الیکشن میں اپنا ووٹ بیچا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آج خود کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ عوام عمران خان کو مسترد کر چکے ہیں اور حکومت کو عوام کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب سکھر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اس اجلاس اور اعتماد کے ووٹ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف واضح طور پر دوبارہ الیکشن کے مؤقف پر قائم ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر حملے کی مذمت کی۔
حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
وزیرِ اعظم نے اعتماد کا ووٹ کیوں لیا؟
تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی جنرل نشست پر حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کی شکست اور اپوزیشن کی شدید تنقید کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا رضاکارانہ فیصلہ کیا تھا۔
اسلام آباد کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے بعد حزبِ اختلاف کا مؤقف تھا کہ سینیٹ انتخابات میں شکست کے بعد حکمران اتحاد کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس لیے عمران خان بطور وزیرِ اعظم اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ہنگامہ
وزیرِ اعظم پر اعتماد کے ووٹ کی کارروائی کے موقع پر اسلام آباد میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی۔
حزبِ اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک کی اسلام آباد کے ڈی چوک پر پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کارکنان نے نعرے بازی شروع کر دی۔
مقامی میڈیا کے مطابق پریس کانفرنس کے بعد ہجوم میں شامل ایک شخص نے مصدق ملک کو تھپڑ مارا جس کے بعد لیگی رہنماؤں نے تھپڑ مارنے والے شخص کو پکڑنے کی کوشش کی۔
رپورٹس کے مطابق ایسا ہی ایک واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ایک شخص نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم اورنگزیب کو دھکا دیا جب کہ ہجوم میں ایک شخص نے اپنا جوتا لیگی رہنماؤں کی جانب اچھالا جو احسن اقبال کو جالگا۔
اسلام آباد میں ہونے والی ہنگامہ آرائی پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ لیگی رہنماؤں پر فخر ہے جنہوں نے شیروں کی طرح ووٹ چوروں اور غنڈوں کا مقابلہ کیا۔
اعتماد کے ووٹ کے قواعد کیا کہتے ہیں؟
قواعد کے مطابق وزیرِ اعظم کے انتخاب اور اعتماد کے ووٹ کا طریقۂ کار تقریباً ایک جیسا ہے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ اعتماد کے ووٹ میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 91 کی ذیلی شق سات کے تحت اگر صدرِ پاکستان کو ایسا محسوس ہو کہ وزیرِ اعظم اراکین اسمبلی کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ تو وہ وزیرِ اعظم سے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتے ہیں۔
اعتماد کے ووٹ کے حصول کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس صدر کی جانب سے طلب کیا جاتا یے۔
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق وزیرِ اعظم آئین کے آرٹیکل 91 کی ذیلی شق سات اور سیکنڈ شیڈول پر عمل کرتے ہوئے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں۔
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے عمل کے دوران اگر قومی اسمبلی کے 172 سے کم ارکان وزیرِ اعظم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ اور باقی ارکان غیر حاضر رہیں یا ایوان میں ہوتے ہوئے بھی لابیز میں جا کر شمار کنندگان کے پاس اپنے نام کا اندراج نہیں کرائیں گے۔ تو اس کا مطلب ہو گا کہ وزیرِ اعظم ایوان میں اکثریت کھو چکے ہیں۔