رسائی کے لنکس

وسط مدتی انتخابات کے امریکی سیاست پر اثرات


وسط مدتی انتخابات کے امریکی سیاست پر اثرات
وسط مدتی انتخابات کے امریکی سیاست پر اثرات

امریکی کانگریس کے انتخابات نومبر میں ہونے والے ہیں۔ بعض ڈیموکریٹس یہ امید کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ریپبلیکن مخالفین کو سابق صدر جارج ڈبلو بُش کی اقتصادی پالیسیوں کے کھاتے میں ڈال سکیں گے۔ دوسری طرف ریپبلیکنز کا کہنا ہے کہ وسط مدتی انتخاب ایک طرح سے موجودہ صدر باراک اوباما کی کامیابی کا ریفرینڈم ہوں گے ، سابق صدر بُش سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

ایوانِ نمائندگان کے ارکان پہلے ہی اگست کی چھٹیوں کے لیے واشنگٹن ڈی سی سے اپنے انتخابی حلقوں کو واپس جا چکے ہیں اور سینیٹرز اس ہفتے کے آخر میں چلے جائیں گے۔ دونوں پارٹیوں کے قانون ساز اپنی انتخابی مہم کے پیغامات کو آز ما رہے ہیں کہ ان کے انتخابی حلقوں میں یہ پیغامات کس حد تک موئثر ثابت ہوں گے ۔صدر اوباما نے ڈیموکریٹس کی حکمت عملی کے بارے میں اشارہ دے دیا ہے۔

اٹلانٹا، جارجیا میں ایک سیاسی اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ سابق صدر جارج بُش کے زمانے میں، ریپبلیکنز نے امریکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا اور اب وہ ووٹرز سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں ایک بار پھر اقتدار دے دیا جائے۔ صدر اوباما نے کہا’’امریکی عوام کو جن مشکلات کا سامنا ہے انہیں حل کرنے کے لیے ریپبلیکنز نے کوئی ایک بھی نئی تجویز نہیں دی ہے۔ ان کے ذہن میں کوئی ایک بھی چیز نہیں ہے جو جارج بُش کے خیالات سے مختلف ہو۔اس کے بجائے وہ یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ لوگوں کا حافظہ خٖتم ہو چکا ہے۔ آ پ لوگ پرانی باتیں بھول چکے ہیں۔‘‘

ریاست ایریزونا کے سینیٹر جان مکین نے 2008 میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے مسٹر اوباما کے خلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ منگل کے روز کیپیٹل ہِل پر ایک نیوز کانفرنس میں انھوں نے مسٹر اوباما سے کہا کہ وہ ہر چیز کے لیے سابق صدر بُش کو الزام دینا بند کر دیں۔’’بات کچھ ہی کیوں نہ ہو وہ بُش کو الزام دینے کی رٹ لگا سکتے ہیں۔ لیکن امریکی عوام نومبرمیں ان کی جوابدہی کریں گے ، اس انتظامیہ کی نہیں جسے اقتدار چھوڑے ڈیڑھ برس سے بھی زیادہ عرصہ گذر چکا ہے ۔‘‘

سینیٹر جان میکین (فائل فوٹو)
سینیٹر جان میکین (فائل فوٹو)

سینیٹر میکین نے صدر اوباما پر یہ تنقید بھی کی کہ وہ عراق میں امریکی فوج کی کامیابی کو اپنا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب اوباما سینیٹر تھے اور صدارت کا انتخاب لڑ رہے تھے تو انھوں نے اس وقت عراق میں فوجوں میں اضافے کی مخالفت کی تھی۔میکین نے کہا کہ مسٹر اوباما اتنے تنگ نظر ہیں کہ وہ جارج ڈبلو بش کو عراق میں کامیابی کے لیے تعریف کے دو بول کہنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ اس ہفتے کے شروع میں، صدر اوباما نے کہا تھا کہ اس مہینے کے آخر تک، وہ اپنے وعدے کے مطابق عراق سے اپنے تمام جنگجو فوجی نکال لیں گے ۔

یونیورسٹی آف ورجینیا کے تجزیہ کار لیری ساباتو کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک امیدواروں نے ابھی حال ہی میں یہ حکمت عملی اختیار کی ہے کہ ووٹروں کو بتایا جائے کہ ریپبلیکنز انہیں سابق صدر بُش کی ناکام پالیسیوں میں واپس لے جائیں گے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آئیں گے، ڈیموکریٹس یہی حربہ استعمال کریں گے۔

لیری ساباتوکہتے ہیں’’ان کا خیال ہے کہ اگر وہ لوگوں کو یہ یاد دلا سکیں کہ یہ انتخاب صرف اوباما پر ریفرینڈم نہیں ہے، بلکہ انہیں اوباما اور بُش کے ریپبلیکنز میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہے، تو ڈیموکریٹس کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی ۔‘‘

ساباتو کہتے ہیں کہ امریکہ میں انتخابی مہم کے دوران دوسری سیاسی پارٹی کے غیر مقبول صدر کو نشانہ بنانے کی روایت خاصی قدیم ہے ۔’’ڈیموکریٹس جن میں سابق صدور فرینکلن روزویلٹ اور ہیری ٹرومین شامل ہیں، کئی عشروں تک ہربرٹ ہوور کے خلاف انتخابی مہم چلاتے رہے ۔ ریپبلیکنز نے کئی عشروں تک ڈیموکریٹس کے خلاف انتخابی مہموں میں سابق صدر جمی کارٹر کا نام استعمال کیا۔ یقیناً سابق صدر جارج بُش جیسے غیر مقبول صدر کا نام کم از کم چند انتخابات میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نومبر میں یقیناً ڈیموکریٹس کو کچھ نشستوں کا نقصان ہو گا کیوں کہ روایت یہی ہے کہ جو پارٹی وائٹ ہاؤس میں ہوتی ہے وہ پہلے صدارتی انتخاب کے بعد وسط مدتی انتخاب میں کچھ نشستیں کھو دیتی ہے۔ اور آج کل ملک بھر میں بے روزگاری کی شرح دس فیصد کے قریب ہے اور معیشت کی حالت اب بھی غیر یقینی ہے ۔رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، صدر کی مقبولیت کی شرح گِر رہی ہے۔ ایوانِ نمائندگان، سینیٹ اور گورنروں کے انتخاب کے امیدواروں کی کوشش ہو گی کہ اپنے ڈیموکریٹک حریفوں کو مسٹر اوباما کے نام کے ساتھ نتھی کر دیں۔

XS
SM
MD
LG