پاکستان میں فوجی عدالتوں کو عام شہریوں کے خلاف مقدمات سننے کے اختیار کی دو سالہ آئینی مدت مکمل ہو گئی ہے اور حکومتی خواہش کے باوجود مدت میں مزید توسیع نہ ہو سکنے کے باعث ان خصوصی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا کام رک گیا ہے۔
جنوری کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل نہ کر سکنے کے باعث حکومت کی جانب سے اس پر کوئی پیش رفت عمل میں نہ لائی جا سکی۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جنوری 2015 میں اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم ہوئیں اور جنوری 2017 میں آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد مارچ میں ان عدالتوں کے دورانیے میں مزید دو سال کی توسیع کی گئی۔ فوجی عدالتوں کی مدت 30 مارچ کو ختم ہو گئی ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق فوجی عدالتوں کے قیام سے لے کر دسمبر تک وفاقی حکومت نے سماعت کے لیے 717 مقدمات بھجوائے جن میں سے 546 مقدمات فوجی عدالتیں طے کر چکی ہیں۔ ان 546 فیصلوں میں سے 310 کیس سزائے موت کے تھے اور 234 مختلف قید کی سزائیں تھیں جبکہ دو ملزمان کو بری بھی کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سزائے موت پانے والے 310 ملزمان میں سے اب تک 56 کو پھانسی دی جا چکی ہے جبکہ دیگر ملزمان نے اعلیٰ عدالتوں میں نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے یا ان کی رحم کی اپیل صدر مملکت یا آرمی چیف کے پاس موجود ہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے جنوری میں ایک پریس کانفرنس میں کئے جانے والے سوال کے جواب میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کو وقت کی ضرورت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی فوجی عدالتوں کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔
فوجی عدالتوں کی مدت مکمل ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوششیں تاحال جاری ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ ہفتے ہونے والے قومی داخلہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو فوجی عدالتوں اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حزب اختلاف کے رہنما انا کا شکار ہیں تو وہ نیشنل ایکشن پلان اور فوجی عدالتوں کے بارے میں تحفظات دور کرنے کے لئے خود ان جماعتوں کے پاس جانے کو تیار ہیں۔
حزب اختلاف کی اہم جماعت پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے تاہم مسلم لیگ ن کی قیادت اس حوالے سے تاحال کو ئی واضع فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔
سیاسی ماہرین یہ توقع رکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے انکار کے باوجود مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف غیر متوقع طور پر فوجی عدالتوں کی توسیع کے لئے ہاتھ ملائیں گی۔ پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کی عددی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حکومتی اتحاد، مسلم لیگ ن کی حمایت سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی آئینی ترمیم منظور کروا سکتی ہے۔
اس سے قبل حکومت نے 28 مارچ کو پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس رکھا تھا جسے حزب اختلاف کی جماعتوں کے بائیکاٹ کے باعث منسوخ کرنا پڑا تھا۔ اگرچہ اس اجلاس کے ایجنڈے میں فوجی عدالتوں کا ذکر موجود نہیں تھا تاہم اکثر اپوزیشن رہنماؤں کا یہ خیال تھا کہ حکومت کی جانب سے یہ مشاورتی اجلاس فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے بلایا گیا تھا۔
فوجی عدالتوں کے دو ہزار پندرہ میں قیام پر انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، بعض سیاسی راہنماؤں اور وکلاء نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔