واشنگٹن —
صدر براک اوباما کی جانب سے شام پر حملے کا عندیہ دیے جانے کے بعد اس حملے کے دن اور وقت کے بارے میں بین الاقوامی طاقتوں کے مابین مشاورت جاری ہے۔
فرانس نے کہا ہے کہ برطانوی پارلیمان میں شام پر حملے کی قرارداد مسترد ہونے کے باوجود صدر بشار الاسد کو "سزا دینے" کا اس کا عزم برقرار ہے۔
جمعے کو مقامی اخبار 'لموند' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں فرانس کے صدر فرانسس اولاں نے کہا کہ برطانوی پارلیمان کی جانب سے ڈیوڈ کیمرون حکومت کو شام پر حملے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود وہ اس خیال کے حامی ہیں کہ شامی حکومت کو اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائی حملہ کرنے پر "سخت سزا" ملنی چاہیے۔
فرانسیسی صدر نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو "شامی عوام کو پہنچنے والا ناقابلِ تلافی نقصان" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ شامی حکومت کےخلاف جوابی کاروائی کے لیے اپنے اتحادی ممالک سے رابطے میں ہیں۔
اخبار کی جانب سے اس سوال پر کہ کیا فرانس، برطانیہ کے بغیر ہی شام کے معاملے پر کوئی قدم اٹھائے گا، صدر اولاں کا کہنا تھا، "یقیناً۔ ہر ملک کسی بھی کاروائی میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ اور یہ اصول برطانیہ اور فرانس کے لیے یکساں ہے"۔
خیال رہے کہ جمعرات کو برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کی جانب سے شام پر حملے کی اجازت دینے سے متعلق ایک قرارداد کو پارلیمان کے ایوانِ زیریں 'دارالعوام' نے مسترد کردیا تھا۔
مبصرین کے مطابق قرارداد مسترد ہونے کے نتیجے میں شام پر مجوزہ حملے کے لیے بین الاقوامی حمایت کے حصول کی امریکی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔
صدر بشار الاسد کی حکومت کے اہم ترین اتحادی ملک روس نے برطانوی پارلیمان کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے ایک مشیر نے کہا ہے کہ برطانوی پارلیمان کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو شام کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی سے پیدا ہونے والے خطرات سمجھ آنا شروع ہوگئے ہیں۔
چین نے بھی زور دیا ہے کہ شام کے معاملے میں سلامتی کونسل جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنے سے گریز کرے اور اقوامِ متحدہ کے شام میں موجود معائنہ کاروں کو اپنا کام مکمل کرنے کا موقع دے۔
شام میں کیمیائی حملوں کی تحقیقات کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے تاحال اپنی حتمی رپورٹ عالمی ادارے کے سربراہ کو پیش نہیں کی ہے لیکن اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کے ثبوت مل گئے ہیں کہ گزشتہ ہفتے ہونے والا کیمیائی حملہ شامی حکومت نے کیا تھا۔
امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ امریکی فوج شام پر حملے کے لیے تیار ہے او رصدر براک اوباما کے حکم کی منتظر ہے۔
بعض امریکی مبصرین کا خیال ہے کہ جناب ہیگل کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام پر امریکی حملہ یقینی ہے اور اس بارے میں فیصلہ عنقریب متوقع ہے۔
'وائس آف امریکہ' کے ساتھ گفتگو میں 'واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی' سے منسلک ماہر جیفری وہائٹ نے کہا ہے کہ شام پر حملے کی ٹائمنگ پر 'وہائٹ ہاؤس' میں مشاورت جاری ہے اور اس کا حتمی فیصلہ اتوار تک کیے جانے کا امکان ہے۔
امریکہ واضح کرچکا ہے کہ شام پر حملہ محدود نوعیت کا ہوگا جس کا مقصد وہاں حکومت کی تبدیلی نہیں بلکہ موجودہ حکومت کو کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر "سرزنش" کرنا ہوگا۔
شام کے صدر بشار الاسد نے گزشتہ روز خبردار کیا تھا کہ ان کا ملک کسی بھی غیر ملکی حملے کا منہ توڑ جواب دے گا۔
فرانس نے کہا ہے کہ برطانوی پارلیمان میں شام پر حملے کی قرارداد مسترد ہونے کے باوجود صدر بشار الاسد کو "سزا دینے" کا اس کا عزم برقرار ہے۔
جمعے کو مقامی اخبار 'لموند' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں فرانس کے صدر فرانسس اولاں نے کہا کہ برطانوی پارلیمان کی جانب سے ڈیوڈ کیمرون حکومت کو شام پر حملے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود وہ اس خیال کے حامی ہیں کہ شامی حکومت کو اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائی حملہ کرنے پر "سخت سزا" ملنی چاہیے۔
فرانسیسی صدر نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو "شامی عوام کو پہنچنے والا ناقابلِ تلافی نقصان" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ شامی حکومت کےخلاف جوابی کاروائی کے لیے اپنے اتحادی ممالک سے رابطے میں ہیں۔
اخبار کی جانب سے اس سوال پر کہ کیا فرانس، برطانیہ کے بغیر ہی شام کے معاملے پر کوئی قدم اٹھائے گا، صدر اولاں کا کہنا تھا، "یقیناً۔ ہر ملک کسی بھی کاروائی میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ اور یہ اصول برطانیہ اور فرانس کے لیے یکساں ہے"۔
خیال رہے کہ جمعرات کو برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کی جانب سے شام پر حملے کی اجازت دینے سے متعلق ایک قرارداد کو پارلیمان کے ایوانِ زیریں 'دارالعوام' نے مسترد کردیا تھا۔
مبصرین کے مطابق قرارداد مسترد ہونے کے نتیجے میں شام پر مجوزہ حملے کے لیے بین الاقوامی حمایت کے حصول کی امریکی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔
صدر بشار الاسد کی حکومت کے اہم ترین اتحادی ملک روس نے برطانوی پارلیمان کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے ایک مشیر نے کہا ہے کہ برطانوی پارلیمان کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو شام کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی سے پیدا ہونے والے خطرات سمجھ آنا شروع ہوگئے ہیں۔
چین نے بھی زور دیا ہے کہ شام کے معاملے میں سلامتی کونسل جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنے سے گریز کرے اور اقوامِ متحدہ کے شام میں موجود معائنہ کاروں کو اپنا کام مکمل کرنے کا موقع دے۔
شام میں کیمیائی حملوں کی تحقیقات کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے تاحال اپنی حتمی رپورٹ عالمی ادارے کے سربراہ کو پیش نہیں کی ہے لیکن اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کے ثبوت مل گئے ہیں کہ گزشتہ ہفتے ہونے والا کیمیائی حملہ شامی حکومت نے کیا تھا۔
امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ امریکی فوج شام پر حملے کے لیے تیار ہے او رصدر براک اوباما کے حکم کی منتظر ہے۔
بعض امریکی مبصرین کا خیال ہے کہ جناب ہیگل کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام پر امریکی حملہ یقینی ہے اور اس بارے میں فیصلہ عنقریب متوقع ہے۔
'وائس آف امریکہ' کے ساتھ گفتگو میں 'واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی' سے منسلک ماہر جیفری وہائٹ نے کہا ہے کہ شام پر حملے کی ٹائمنگ پر 'وہائٹ ہاؤس' میں مشاورت جاری ہے اور اس کا حتمی فیصلہ اتوار تک کیے جانے کا امکان ہے۔
امریکہ واضح کرچکا ہے کہ شام پر حملہ محدود نوعیت کا ہوگا جس کا مقصد وہاں حکومت کی تبدیلی نہیں بلکہ موجودہ حکومت کو کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر "سرزنش" کرنا ہوگا۔
شام کے صدر بشار الاسد نے گزشتہ روز خبردار کیا تھا کہ ان کا ملک کسی بھی غیر ملکی حملے کا منہ توڑ جواب دے گا۔