پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں زیرِ تعمیر بس منصوبے سے جہاں ایک طرف عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری طرف مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اب اس منصوبے میں بدعنوانی کے الزامات لگا کر منصوبے کے بارے میں پہلے سے موجود شکوک و شبہات کو مزید تقویت دے رہے ہیں۔
منصوبے پر گزشتہ سال ستمبر میں کام شروع کرتے وقت وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے رواں سال جنوری میں اس کا تعمیری کام مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
تاہم ڈیڈلائن کے چار ماہ بعد بھی اس منصوبے پر کام تاحال جاری ہے اور اب وزیرِ اعلیٰ کے ترجمان شوکت علی یوسفزئی کا دعویٰ ہے کہ رواں سال جولائی کے آخر میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا۔
لیکن چند روز قبل منصوبے پر کام کرنے والے تین اعلیٰ افسران کے مستعفی ہونے کے بعد نہ صرف اس منصوبے پر اعتراضات کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے بلکہ پانچ سال تک صوبے کی مخلوط حکومت میں رہنے والی جماعت اسلامی کے بعض رہنماؤں نے بھی اس منصوبے کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔
جماعتِ اسلامی کے رہنما آصف لقمان قاضی نے اپنے ایک بیان میں پشاور بس منصوبے میں وسیع پیمانے پر مالی بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
جماعت اسلامی سے قبل حزبِ اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے بھی اس منصوبے پر کام کرنے والے اعلیٰ افسران کے مستعفی ہونے کے بعد نہ صرف نیب بلکہ عدلیہ سے بھی بس منصوبے کی تحقیقات کی اپیل کی تھی۔
خیبر پختونخوا کے محکمۂ تعمیرات کے ایک سابق چیف انجینئر زرد علی خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں دعویٰ کیا ہے کہ اس منصوبے پر مناسب فزیبلیٹی رپورٹ کے بغیر کام شروع کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے بار بار اس میں تبدیلی کی جارہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ویسے تو کاغذات میں فزیببلیٹی رپورٹ پر خطیر اخراجات ظاہر کیے گئے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ایک ایسی تعمیراتی فرم کو دیا گیا ہے جو پنجاب حکومت پہلے ہی بلیک لسٹ کرچکی ہے۔ ان کے بقول پنجاب حکومت نے جن الزامات یا غلطیوں کو بنا پر اس فرم کو بلیک لسٹ کیا ہے وہ غلطیاں یہ فرم پشاور منصوبے میں دہرا رہی ہے۔
بس منصوبے سے پیدا شدہ مسائل کے بارے میں تجزیہ کار اور کالم نویس اسلام گل آفریدی کہتے ہیں کہ اگر اس سے اگر ایک طرف شہریوں کے مشکلات بالخصوص آمدورفت میں خلل پیدا ہوا ہے تو دوسرے طرف اس سے تجارتی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس منصوبے پر کام شروع کرنے کے لیے کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہورہا ہے بلکہ اس سے متعلق کئی قسم کے شکوک وشبہات بھی جنم لے رہے ہیں۔
لیکن وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ترجمان اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شوکت علی یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں بس منصوبے کے بارے میں شکوک و شبہات اور بدعنوانی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی 2018ء میں ہونے عام انتخابات سے قبل منصوبے کا تعمیراتی کام مکمل کرلیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے میں اب 51 کلومیٹر کے لنک روڈ بھی شامل کردیے گئے ہیں لیکن اس کے مجموعی اخراجات اب بھی 57 ارب روپے ہی ہیں جو ان کے بقول اب بھی 10 سال قبل لاہور میں تعمیر ہونے والے بس منصوبے سے کافی کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اخراجات میں میں بسوں کے خریداری اور تجارتی مارکیٹوں کے تعمیر بھی شامل ہیں۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ منصوبے پر کام کرنے والے افسران کے مستعفی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ خالی کیے گئے عہدوں کو طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق پر کیا جارہا ہے۔
بی آرٹی منصوبے کے تعمیراتی کام سے پشاور شہر کے کئی علاقے متاثر ہورہے ہیں اور رنگ روڈ سے لے کر حیات آباد تک تمام تر تجارتی مراکز، بازار، دکانیں، دفاتر اور رہائشی علاقے گرد و غبار سے اٹے رہتے ہیں۔