پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ون ڈے انٹرنیشنل سیریز ایک عجیب موڑ پر موجود ہے، اس وقت جب تین میچز کی سیریز ایک ایک سے برابر ہے۔ پاکستانی شائقین میزبان ٹیم کے وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک کو 'چیٹر' قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ جنوبی افریقہ کے خلاف اتوار کو کھیلے جانے والے دوسرے میچ میں پاکستان ٹیم سنسنی خیز مقابلے کے بعد 17 رنز سے ہار گئی۔
تین سو بیالیس رنز کے ہدف کے تعاقب میں فخر زمان کی 193 رنز کی اننگز نے میچ کو جاندار تو بنا دیا تھا لیکن ٹاپ اور مڈل آرڈر کی ناکامی کی وجہ سے پاکستان ٹیم کو میچ میں شکست ہوئی۔
ٹیم میں کم بیک کرنے والے اوپنر نے نہ صرف ایک اینڈ سنبھالے رکھا بلکہ اپنی ٹیم کو کامیابی کے بہت قریب بھی پہنچا دیا تھا۔ ان کی شاندار اننگز میں 10 چھکے اور 18 چوکے شامل تھے اور انہوں نے صرف 155 گیندوں کا سامنا کیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر فخر کی اننگز کی کپتان بابر اعظم سمیت لوگوں نے خوب تعریف بھی کی۔
نہ صرف فخر زمان نے اس اننگز کے دوران جوہانسبرگ میں انفرادی اننگز کا ریکارڈ توڑا بلکہ ون ڈے انٹرنیشنل کی تاریخ میں دوسری اننگز میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بھی بن گئے۔
اننگز کے دوران جب وہ اپنی ممکنہ دوسری ڈبل سینچری سے صرف سات رنز دور تھے تو جنوبی افریقی کھلاڑیوں نے بہت سے شائقین اور بعض ماہرین کے مطابق انہیں 'دھوکے' سے رن آؤٹ کیا۔ شائقین کو فخر زمان کے 193 رنز پر آؤٹ ہونے سے زیادہ طریقہ آؤٹ پر اعتراض تھا جو ان کے خیال میں کرکٹ کے نئے قوانین کے لحاظ سے جائز نہیں۔
آخری اوور کی پہلی گیند پر فخر زمان نے شاٹ کھیلا اور دوسرے رن کے لیے وہ اسٹرائیکرز اینڈ پر آ رہے تھے کہ اس دوران جنوبی افریقی وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک نے ایسا تاثر دیا کہ فیلڈر نے گیند دوسرے اینڈ پر پھینکی ہے۔ حالاں کہ گیند انہیں کی طرف پھینکی گئی تھی۔
فخر زمان نے یہ دیکھنے کے لیے کہ دوسرے اینڈ پر رن لینے والے حارث رؤف کی طرف مڑ کر دیکھا جس کی وجہ سے ان کی رفتار کم ہوئی اور ڈی کوک نے انہیں رن آوٹ کر دیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے قانون کے مطابق کھلاڑی کو دھوکہ دہی سے آؤٹ کرنا، یا اس کا دھیان ہٹانا 'ان فیئر پلے' کے زمرے میں آتا ہے۔
قانون کی شق نمبر 41.4 کے مطابق گیند کرائے جانے کے بعد فیلڈر کی جانب سے کسی الفاظ یا ایکشن کے ذریعے بلے باز کا دھیان ہٹانا 'ان فیئر پلے' قرار دیا جائے گا، جس کے بدلے بیٹنگ ٹیم کو پانچ رنز دیے جاتے ہیں۔
لیکن فخر زمان کے معاملے میں نہ تو آن فیلڈ امپائر نے اسے غلط فیصلہ قرار دیا اور نہ ہی مینجمنٹ میں سے کسی نے اس پر اعتراض کیا۔
پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنلز میں امپائرنگ کے فرائض انجام دینے والے سلیم بدر کہتے ہیں قوانین کے مطابق اگر فیلڈر کی دھوکہ دہی سے کوئی نقصان ہوا ہے تو اس پر پینالٹی بنتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر فیلڈر کے ہاتھ میں گیند نہیں اور اس نے صرف اشارہ کیا ہے جس کے نتیجے میں وکٹ گری یا کوئی نقصان ہوا تو اس پر اضافی رنز ملنا چاہیئیں لیکن اگر اس کی حرکت سے کوئی نقصان نہیں ہوا تو اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاسکتا۔ ان کے بقول دونوں صورتوں میں امپائر کا یہ محسوس کرنا ضروری ہے کہ وکٹ گرانے کے لیے دھوکہ دہی کا استعمال ہوا یا نہیں۔
کیا کوئنٹن ڈی کوک نے واقعی قانون کی خلاف ورزی کی؟
مشہور کرکٹ کمنٹیٹر ایلن ولکنز نے اس واقعے کے بارے میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ وہ جتنی مرتبہ یہ آؤٹ دیکھتے ہیں، انہیں برا لگتا ہے۔ کوئنٹن ڈی کوک نے دھوکہ دہی سے فخر زمان کو آؤٹ کیا۔
ویسٹ انڈین کرکٹر شرفین ردرفرڈ نے بھی کوئنٹن ڈی کوک کی 'دھوکہ دہی' کو افسوس ناک قرار دیا۔
کوئنٹن ڈی کوک نے جو کیا، وہ غیر قانونی تھا یا نہیں؟
ٹیسٹ کرکٹر یاسر عرفات کا کہنا تھا کہ فخر زمان کے آؤٹ کو ایشو نہیں بنانا چاہیے کیوں کہ پاکستان ٹیم اس واقعے کی وجہ سے میچ نہیں ہاری بلکہ وہ پہلے ہی میچ ہار چکی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو کلپ کو بار بار دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جنوبی افریقی وکٹ کیپر تو شروع سے ہی بالنگ اینڈ کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ فخر زمان کو رن مکمل کرنے پر توجہ دینا چاہیے تھی۔
ان کے بقول ڈی کوک نے قہقہہ اپنی ہوشیاری پر نہیں بلکہ فیلڈر کی تھرو وکٹ پر ڈائریکٹ لگنے کی وجہ سے مارا۔ جس پر اسے وارننگ تو دی جاسکتی ہے لیکن دوسری ٹیم کو پینالٹی رنز نہیں۔
یاسر عرفات کہتے ہیں فخر اگر ڈبل سینچری کرتے تو یقیناً خوشی ہوتی لیکن ان کا بھی فرض تھا کہ وہ پہلے کریز کے اندر پہنچتے پھر دوسری طرف دیکھتے۔
اسی میچ کے آخری لمحات میں جنوبی افریقی کپتان ٹیمبا باووما نے فخر زمان کا ایک مشکل کیچ گرایا۔ لیکن گیند زمین پر گرنے کے بجائے ان کی ہیٹ پر گری جس پر سوشل میڈیا میں ہنگامہ برپا ہو گیا کہ پاکستان کو پینالٹی رنز ملنے چاہیے تھے۔
راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ گیند جنوبی افریقی کپتان کے ہاتھ سے نکل کر ان کی ہیٹ سے ٹکرائی، جو زمین پر گر گئی تھی۔ اس لیے پاکستان کو پانچ رنز ملنے چاہیے تھے۔
شائقینِ کرکٹ نے ٹوئٹر پر شعیب اختر کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ جن میں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی ٹوئٹر صارفین بھی شامل ہیں۔
لیکن پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں امپائرنگ کرنے والے سلیم بدر کا کہنا تھا کہ اگر کھلاڑی گیند روکنے کے لیے اپنی ہیٹ یا کیپ استعمال کرتا ہے تو اس پر پینالٹی رنز ملتے ہیں۔ بال کا حادثاتی طور پر اس سے لگنا یا ٹکرانا، یہ غیر قانونی نہیں۔
ان کے بقول، "اگرکھلاڑی کی ہیٹ یا کیپ ہوا سے یا پھر کسی اور وجہ سے اتری، اور اس دوران گیند اس سے لگ گئی، تو یہ غیر قانونی فیلڈنگ نہیں کہلائے گی۔ اگر کھلاڑی نے گیند کو روکنے کی غرض سے ہیٹ یا کیپ اتار کر پھینکی ہوتی اور اس سے بال رک جاتی تو اسے غیر قانونی فیلڈنگ تصور کیا جاتا۔"
جنوبی افریقہ، پاکستان کے لیے اکثر متنازع وینیو ہی رہا ہے
یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیریز کے دوران بدمزگی ہوئی ہو۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلا دورۂ جنوبی افریقہ 1993 میں اس وقت کے کم ترین اسکور پر آؤٹ ہو کر یادگار بنایا تھا جب کیپ ٹاؤن میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گئے تین ملکی سیریز کے میچ میں وسیم اکرم کی زیرِ قیادت ٹیم 20ویں اوور میں صرف 43 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی۔
اس کے بعد 1998 میں پاکستان ٹیم کے دو نوجوان کھلاڑی محمد اکرم اور ثقلین مشتاق جوہانسبرگ میں میچ سے قبل زخمی ہو گئے تھے۔ دونوں کا کہنا تھا کہ وہ سڑک پر چہل قدمی کررہے تھے کہ تین سیاہ فام لوگوں نے انہیں پیٹا اور پیسے لے کر فرار ہوگئے لیکن مقامی اخبارات نے لکھا کہ دونوں کھلاڑی نائٹ کلب میں تھے۔
اس کے بعد 2007 میں شاہد آفریدی کے بیٹ چلنے سے بھی بدمزگی پیدا ہوئی۔ کیونکہ یہ بلا گراؤنڈ کے اندر چلنے کے بجائے گراؤنڈ سے واپس آتے ہوئے ایک تماشائی پر چلا تھا۔ اس حرکت کے بعد ان پر چار میچز کی پابندی بھی لگی جس کی وجہ سے وہ ورلڈ کپ 2007 کے چند میچز میں شرکت نہیں کر سکے تھے۔
اور آخر میں بات دو برس قبل ہونے والے اس واقعے کی، جب ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے مقامی کھلاڑی پھلوکوایو پر نسل پرستانہ جملے کسے تھے، جو اسٹمپ مائیکرو فون میں نہ صرف محفوظ ہوگئے تھے بلکہ دنیا بھر میں سنے بھی گئے۔
اس واقعے کے بعد آئی سی سی نے سرفراز احمد پر چار میچز کی پابندی عائد کر دی تھی۔