پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہر گزرتے دِن کے ساتھ سیاسی صورتِ حال میں کوئی نہ کوئی ڈرامائی موڑ آرہا ہے۔ پہلے نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے موقع پر ایوان میں ارکان ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے تو اب منتخب وزیرِ اعلیٰ کی حلف برداری بھی سیاسی محاذ آرائی کی لپیٹ میں آگئی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ق نے 16 اپریل 2022 کو ہونے والے قائدِ ایوان کے انتخاب کو غیر آئینی اور متنازع قرار دیتے ہوئے اُسے عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ وفاق اور پنجاب میں شروع ہونے والی حالیہ کشمکش میں تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت میں گورنر بننے والے عمر سرفراز چیمہ نے نو منتخب وزیرِ اعلیٰ سے حلف لینے کے معاملے میں مبہم موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ وہ تقریبِ حلف برداری کے انعقاد سے پہلے آئینی اور قانونی ماہرین کی رائے معلوم کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے گورنر پنجاب کو عہدے سے ہٹانے کے لیے صدرِ مملکت کو سفارش کی ہے اور اِس سلسلے میں سمری بھی بھجوا دی گئی ہے۔ تاہم ترجمان گورنر ہاؤس لاہور لالہ رخ ناز کے مطابق صدر عارف علوی نے گورنر پنجاب عمر سرفراز کو اُن کے عہدے پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
ترجمان کے مطابق گورنر پنجاب کو برطرف کرنے کے لیے ارسال کی گئی سمری پر فیصلہ ہونے تک وہ اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ قائداعظم نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اِسی دوران ہونے والی رائے شماری میں حمزہ شہباز 197 ارکان کی حمایت سے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے۔ لیکن اس کے بعد بھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
’پاکستان میں نئے سیاسی تجربات کیے جارہے ہیں‘
ایوان سے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے بعد حلف برداری آئین کے مطابق ایک معمول کا رسمی تقاضا ہے۔ لیکن اس پر بھی پیچیدہ آئینی و قانونی بحث کا آغاز ہوچکا ہے جس کے بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ سیاستدانوں کو آپس کے مسائل خود طے کر لینے چاہیے۔ بصورتِ دیگر یہ معاملہ بھی عدالتوں تک جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد سمجھتے ہیں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے۔ جس طرح پاکستان کے صدر نے شہباز شریف صاحب سے حلف نہیں لیا۔ جس کے بعد ایوانِ بالا کے چیئرمین کو حلف لینا پڑا۔ اِسی طرح گورنر پنجاب حمزہ شہباز سے حلف لینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے اور یہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی پالیسی معلوم ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی طور پر نئے تجربات کیے جا رہے ہیں جو اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی بحران کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے اور وزیرِ اعلیٰ کے بعد اَب نئے گورنر پر بھی جھگڑا شروع ہو گیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ایوان کے اندر ہنگامہ آرائی کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔ یہ پارلیمانی روایات کے خلاف ہے۔ بہتر تو یہی تھا کہ آپس میں ہی معاملات کو طے کیا جاتا۔ عدالتِ عالیہ نے بھی یہ معاملہ افہام و تفہیم سے سلجھانے کی ہدایت کی تھی۔
آئین کیا کہتا ہے؟
پنجاب کے نومنتخب وزیرِ اعلیٰ کی حلف برادری میں تاخیر کے سیاسی پہلو کی نشاندہی کے ساتھ اس پر تکنیکی نکات بھی اٹھائے جارے ہیں۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین اِس بارےمیں واضح نہیں ہے کہ انتخاب کے بعد وزیرِ اعلی کو کتنے دِنوں کے اندر حلف لینا چاہیے یا کسی خاص مدت کے اندر حلف برداری نہ ہونے کی صورت میں اس انتخاب کی حیثیت متاثر ہوگی یا نہیں۔
کنور دلشاد کے مطابق پنجاب اسمبلی کے متعلق دو قانونی آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے ہے کہ یہ انتخاب لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق نہیں ہوا۔ دوسری رائے یہ پائی جاتی ہے کہ ڈپٹی اسپیکر سے کوئی تکنیکی، آئینی اور قانونی غلطی ہوئی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر کی جس غلطی پر تکنیکی اعتراض کیا جارہا ہے اس کے بارے میں کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے دوران جب پی ٹی آئی اور ق لیگ نے بائیکاٹ کیا اور اسمبلی کا ہال خالی ہو گیا تو ڈپٹی اسپیکر نے گیلری میں بیٹھ کر صدارت کیوں کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ جب سیاسی مخالفین ہال سے چلے گئے تو ڈپٹی اسپیکر، اسپیکر ڈائس پر کیوں نہیں آئے۔ اُنہیں طریقہ کار کےمطابق اپنی نشست پر آکر اجلاس کی کارروائی چلانی چاہیے تھی ۔
کنور دلشاد کے مطابق پرویز الہی اس تکنیکی اعتراض کا فائدہ اٹھائیں گے۔ اگر اُنہوں نے اِس نکتے کو بنیاد بنا کر عدالت سے رجوع کر لیا تو عدالت بھی یہ سوال پوچھ سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گیلری اور ایون کے ہال میں فرق ہے۔ گیلری مہمانوں اور اسٹاف کے لیے ہوتی ہے اور اسے ایوان کے ہال یا فلور کا حصہ تصور نہیں کیا جاتا۔گیلری میں بیٹھے ہوئے مہمان ہال میں نہیں آ سکتے۔ اگر ارکان کے علاوہ کوئی غیر متعلقہ شخص ایوان کے فلور پر آتا ہے تو قانون کے مطابق اُسے حراست میں لیا جاسکتا ہے۔
کنور دلشار س کے خیال میں ڈپٹی اسپیکر ایک منتخب رکن ہیں اور انہوں نے اسمبلی عمارت کے ایک ایسے حصے میں بیٹھ کر ایوان کی کارروائی چلائی جو ا س کا فلور ہی تصور نہیں ہوتا۔ان کے بقول اسی تکنیکی نکتے کو بنیاد بنا کر گورنر پنجاب نومنتخب وزیرِ اعلیٰ سے حلف کے معاملے کو التوا میں ڈال رہے ہیں۔
’یہ معاملہ بھی عدالت جائے گا‘
سینئر صحافی سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ جب بھی کوئی آئینی تنازع ہو اور کسی نکتے کی تشریح کی ضرورت ہو تو عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اُن کے بقول اگر مسئلے کا حل نہ نکلا تو یہ معاملہ بھی عدالت میں لے جانا پڑے گا جس کے بعد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی سطح پر اس مسئلے کی وضاحت ہوجائے گی۔
نئے قائدِ ایوان کے انتخاب سے متعلق سہیل وڑائچ نے کہا کہ کہ انتخاب تو عدالتِ عالیہ لاہور کے فیصلے کے مطابق ہوا ہے۔ جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت اِس انتخاب کو آئینی قرار دے گی۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ گورنر کے انکار کی صورت میں اسپیکر نومنتخب وزیرِ اعلیٰ سے حلف لے سکتا ہے لیکن یہاں اسپیکر چونکہ وزارتِ اعلٰی کے امیدوار ہیں تو ڈپٹی اسپیکر بھی یہ آئینی تقاضا پورا کرسکتے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم سے قبل صوبے کے گورنر کی غیر موجودگی میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قائم مقام گورنربنتے تھے لیکن اب یہ ذمے داری اسپیکر کو سنبھالنا ہوتی ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ ماضی میں سیاستدان مختلف مسائل پر عدالتوں میں جاتے رہے ہیں۔ لیکن ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے عدالت کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ لوگ بڑا دل کرتے ہیں اور اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں۔ اِسی طرح جیتنے والا امیدوار تحمل سے کام لیتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتِ حال میں دوںوں طرف سے اسے ضد اور انا کا مسئلہ بنالیا گیا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔