بھارت کی ریاست گجرات کی ایک عدالت نے 2008 میں احمد آباد میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث 38 افراد کو سزائے موت جب کہ 11 کو تادمِ مرگ عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
جمعے کو خصوصی عدالت کے جج اے آر پٹیل نے فیصلہ سناتے ہوئے بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو ایک ایک لاکھ جب کہ زخمیوں کو 50، 50 ہزار روپے دینے کا بھی حکم دیا۔ عدالت نے مجرموں کو دو لاکھ 85 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کی کسی عدالت نے ایک کیس میں اتنے زیادہ افراد کو بیک وقت سزائے موت سنائی ہے۔ یہ سزا غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون یو اے پی اے اور تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے تحت سنائی گئی ہے۔
فیصلہ سنائے جانے کے وقت تمام ملزمان ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے عدالت میں موجود تھے۔
یاد رہے کہ 26 جولائی 2008 کو احمد آباد کے مختلف مقامات پر 70 منٹ کے دوران 22 بم دھماکے ہوئے تھے جن میں 56 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہو گئے تھے۔ یہ دھماکے ایک سرکاری اسپتال سمیت بسوں، گاڑیوں اور سائیکل اسٹینڈز پر کیے گئے تھے اور اس وقت ایک غیر معروف تنظیم انڈین مجاہدین (آئی ایم) نے ان دھماکوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
احمد آباد بم دھماکوں کا مقدمہ مجموعی طور پر 78 ملزمان کے خلاف زیرِ سماعت تھا۔ خصوصی عدالت نے آٹھ فروری کو 49 ملزموں کو بم دھماکوں کا قصوروار قرار دیا تھا اور 28 کو بری کر دیا تھا۔
خصوصی عدالت نے ملزمان کو یو اے پی اے کی دفعات کے علاوہ ملک سے غداری اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزامات کے تحت بھی سزا سنائی ہے۔
مجرموں کو کتنی سزا سنائی جائے؟ اس معاملے پر سماعت کے دوران وکلا دفاع نے کم سے کم سزا سنانے کی اپیل کی تھی جب کہ استغاثہ نے زیادہ سے زیادہ سزا، جو کہ سزائے موت ہے، سنانے کی درخواست کی تھی۔
احمد آباد دھماکے گجرات فسادات کا انتقام تھا، پولیس کا دعویٰ
بھارتی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انڈین مجاہدین ممنوعہ اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کی ذیلی تنظیم ہے۔ اس سے قبل انڈین مجاہدین کا نام نہیں سنا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق انڈین مجاہدین نے احمد آباد بم دھماکوں کے بعد بعض میڈیا اداروں میں ای میل کر کے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
پولیس نے الزام لگایا تھا کہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے فسادات کا انتقام لینے کے لیے یہ دھماکے کیے گئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق ان دھماکوں کے چند روز بعد پولیس نے سورت کے مختلف علاقوں سے بم برآمد کیے تھے۔ اس کے بعد احمدآباد میں 20 اور سورت میں 15 ایف آئی آر درج کی گئیں۔ بعدازاں تمام مقدمات کو یکجا کرکے عدالتی کارروائی شروع کی گئی تھی۔
پولیس نے احمد آباد بم دھماکوں سے متعلق 9000 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی اور الزامات کے ثبوت میں 6000 دستاویزات پیش کی تھیں۔
احمد آباد بم دھماکوں کے کیس کی سماعت کے دوران 9 جج تبدیل ہوئے۔ رپورٹس کے مطابق سماعت کے دوران 1117 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے۔
فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان
خصوصی عدالت نے جن افراد کو سزا سنائی ہے ان کا تعلق ریاست گجرات، اترپردیش، کرناٹک، کیرالہ، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش، راجستھان اور دہلی سے ہے۔
احمد آباد دھماکوں کے ملزمان کو قانونی امداد فراہم کرنے والی جمعیة علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو گجرات ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علما ہند اس معاملے میں ملک کے نامور وکلا کی خدمات حاصل کرے گی اور انہیں یقین ہے کہ اعلیٰ عدالت سے ان نوجوانوں کو انصاف ملے گا۔
مولانا ارشد مدنی کے مطابق احمد آباد جیسے دیگر کئی کیسز میں نچلی عدالتوں نے ملزمان کو سزائیں سنائیں مگر جب معاملہ اعلیٰ عدالت میں گیا تو وہ فیصلے کالعدم قرار دیے گئے۔
جمعیة علما ہند کی قانونی کمیٹی مہاراشٹرا کے سربراہ مولانا گلزار اعظمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خصوصی عدالت کے تحریری فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں جس پر غور و غوض کے بعد فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ "ابھی ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے وکلا کیا دلائل پیش کریں گے یا فیصلے کے بارے میں کیا کہیں گے۔ جب تک فیصلے کا مطالعہ نہیں کر لیا جاتا اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا۔"
خصوصی عدالت نے آٹھ فروری کو اپنے فیصلے میں 28 ملزمان کو الزامات سے بری کیا تھا۔ اس پر مولانا گلزار اعظمی کا کہنا تھا کہ اتنے بے قصور مسلمانوں کو بغیر کسی جرم کے 14 سال تک جیل میں رہنا پڑا۔